وزارت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد میاں نواز شریف کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور اُن کا سوال ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اب ایک اور روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ نااہلی کی تلوار سے زخم خوردہ میاں نواز شریف نے چند ماہ قبل فرمایا کہ ’’میں اب نظریاتی ہو گیا ہوں‘‘۔ اور اس کے چند دن کے بعد اُن کی صاحبزادی نے وجدانی کیفیت میں انکشاف کیا کہ ’’نواز شریف ایک نظریہ کا نام ہے اور اُس کے بعد چراغوں میں روشنی رہی یا نہ رہی مگر قلموں کی روشنائی یہ ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی کہ نواز شریف کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔ ان تمام ’’معتبر نظریاتی دانشوروں‘‘کے زور بیان سے انکار کیونکر ممکن ہے کہ انہیں کی بدولت ’’بدترین آمریت کے لاڈلے سے قائداعظم ثانی تک کا سفر ممکن ہوا۔ لازم ہے کہ تاریخ کے جھرونکوں سے دیکھا جائے کہ… یہ جمہور کے حق حاکمیت کا غم ہے یا ’’تجھے اپنی ذات کا غم‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد تقریباً ایک صدی تک عوام کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا یعنی حکومت کا بننا اور ٹوٹنا عوامی رائے کے بغیر ہی جاری رہے۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے خلاف شدید عوامی مزاحمت نے ’’ایک ووٹ ایک فرد‘‘ کے نظام کو رائج کروانے کو ممکن بنایا۔ اس عوامی مزاحمتی تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور عوام نے اُنھیں ’’قائد عوام‘‘ کا رتبہ عطا کیا۔ اس تمام جمہوری جدوجہد میں خاندان شریفاں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ مگر 1977میں قائدعوام کے عدالتی قتل، عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے اور ووٹ کی تزلیل کرنے ولے آمرضیا کے حمایتیوں میں خاندان شریفاں کا ظہور ہوا۔ اور اس کی وجہ بھٹو صاحب کی معاشی مساوات کی وہ پالیسی بنی جس کی وجہ سے یہ خاندان اپنی فیکٹری سے محروم ہوا۔ لہٰذا کاروباری نقصان اور ’’اپنی ذات کے غم‘‘ نے اُنہیں ووٹ کی حرمت کو پامال کرنے والے شخص کے در پر سجدہ ریز کر دیا اس کے صلہ میں فیکٹری کے ساتھ ساتھ پنجاب کی آمرانہ حکومت میں وزارت خزانہ کا عہدہ ملا تاکہ نقصان کا ازالہ ہو سکے۔ 1985کے غیر حماعتی انتخابات کا مقصد ملک سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ تھا اس کیلئے سرمایہ دارانہ، لسانی اور صوبائی تعصب پر مبنی سیاست کو فروغ دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ میاں نواز نے اپنے آقائوں کے دیئے نعرے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کی بنیاد پر سیاست کو آلودہ کیا۔ جنرل ضیاء حمایت میں آیا اور کہا کہ نواز شریف کا کِلا مضبوط ہے لہٰذا وزارت اعلیٰ کا تاج سجدہ ریز سر پر رکھا گیا۔شاید اسی واقعہ کو یاد کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے چند روز قبل یہ شعر ایک تقریب میں پڑھا کہ…؎
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو فلک سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
جنرل ضیا کو یہ کمزور اور غیر حماعتی عوامی فیصلہ بھی راس نہ آیا تو اُس نے 1988میں حکومت برخاست کر دی۔ میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے سربراہ اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے بجائے ایک دفعہ پھر ’’ووٹ کی تذلیل کرنے والے‘‘ جنرل ضیا کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء کا دور فضائی حادثہ میں ختم ہوا تو میاں نواز شریف جنرل ضیاء کے نظریاتی وارث بن کر اُبھرے اور آمر ضیاء کی قبر سے اعلان کیا کہ میں ضیاء کا مشن پورا کروں گا اور یاد کرو کہ جنرل ضیاء نے دعا کی تھی کہ میری عمر بھی نوازشریف کو لگ جائے۔
1988کے انتخابات میں عوام نے ووٹ کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو منتخب کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ مگر میاں نواز شریف نے ووٹ کی عزت کے برخلاف ’’چھانگا مانگا آپریشن کے ذریعہ ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد رکھی اور نادیدہ قوتوں کی مدد سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر منتخب وزیراعظم کے خلاف لشکر کشی کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا۔ اور پھر دن کا انتخاب آمر ضیاء کی برسی کا موقع رکھا۔ میاں صاحب کی خاتوں وزیراعظم کے خلاف بدزبانی اور ناشائستہ گفتگو آج بھی سنی جا سکتی ہے اور تقریر کا اختتام میاں صاحب نے اپنے پسندیدہ نعرے’’مرد مومن مرد حق‘‘ ضیاالحق، ضیاالحق‘‘ سے کیا۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی سرمایہ اُسامہ بن لادن کا استعمال ہوا کہ عورت کی حکمرانی کا خاتمہ ہو سکے میاں صاحب خریدوفروخت میں پیش پیش تھے مگر ناکام رہے آخر کار میاں صاحب کی جدوجہد رنگ لے آئی اور بی بی کی حکومت کو ضیاء کی متعارف کروائی گئی ترمیم کے ذریعہ برطرف کر دیا گیا اور میاں صاحب ایک دفعہ پھر ووٹ کی تذلیل کرنے والوں کے ہم رکاب تھے۔ اب کی بار تاریخ کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا اور میاں صاحب اس تماشا کے مرکزی کردار تھے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد بنایا گیا اور آئی ایس آئی نے بی بی کے مخالف سیاستدانوں میں کثیر سرمایہ تقسیم کیا۔ جس سے تمام چابی والے کھلونے بشمول خاندان شریفاں بھی پوری طرح فیض یاب ہوا(اصغر خان کیس) نتیجہ میاں نواز شریف کو 1990 کے انتخابات جتوائے گئے۔ اور موصوف ووٹ کی عزت کو پامال کرکے وزیراعظم بن ہی گئے۔ مگر اُلجھنے کی خُو نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا اور اختیارات کی جنگ میں تیتر اور بٹیر کی لڑائی ہوئی اور دونوں ہی گم ہو گئے۔ 1993میں دوبارہ عوام نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم منتخب کیا لیکن میاں نواز شریف نے ووٹ کی عزت کو پامال کرتے ہوئے جمہوری وزیراعظم کے خلاف ’’تحریک نجات‘‘ شروع کی۔ آپ کی کوششوں سے جمہوری حکومت ختم ہوئی ووٹ کی عزت خاک میں ملی اور آپ سرخرو ٹھہرے۔ اس دفعہ بھاری مینڈیٹ کے تکبر میں میاں صاحب نے تمام حدیں عبور کردیں۔ 1۔ امیرالمومنین بننے کا شوق۔2۔ پارلیمنٹ کو گھر کی لونڈی بنا کر بے وقار کرنا۔3۔ سپریم کورٹ پر حملہ۔
4۔سیف الرحمان احتساب کے ذریعہ آصف زرداری اور دوسرے قائدین پر ظلم و ستم کی انتہا۔ 5۔ ملک قیوم جیسے ججوں کے ذریعہ بی بی اور آصف صاحب کے خلاف فیصلے۔ لہٰذا ہر وہ کام کیا گیا جس سے جمہور ،جمہوریت اور ووٹ کا وقار مجروح ہو۔ ذاتی اختیارات کی جنگ کے نتیجہ میں ملک بھر مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا۔ میاں صاحب کو چند ماہ کی قیدوبند نے خوفزدہ کر دیا اور خاندان شریفاں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے اور ووٹ کی عزت بحال کروانے کی بجائے آمر سے معافی مانگ کر سرورپیلس سدھارنے میں ہی عافیت سمجھی اور تاریخ دیکھتی رہی کہ…؎
جاں بچائے لائے ہو لیکن یہ زیاں بھی دیکھو
کتنا ویران ہے تاحد نظر منظر دار
محترمہ بے نظیر بھٹو نے بین الاقوامی سطح پر، آصف زرداری نے جیل اور جمہوریت پسندوں نے ملک کے اندر ووٹ کی عزت کی جنگ لڑی۔ میثاق جمہوریت کے ذریعہ کوشش کی گئی کہ خاندانِ شریفاں کو بھی مشرف بہ جمہوریت کیا جا سکے۔ بی بی نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ہر طرح کے بندوق والوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا اسی آڑ میں خاندان شریفاں کی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ بندوق والے نہتی بے نظیر کے خلاف متحد تھے۔ منصوبہ تیار ہوا اور 27دسمبر 2007کو پیپلز پارٹی کا پانچواں اصول دوبارہ تازہ لہو سے لکھا گیا کہ ’’شہادت ہماری میراث ہے‘‘۔
موسم آیا تو نخل دار پہ میر
سر منصور ہی کا بار آیا
…………………… ( جاری )