حضرت خواجہ معین الدین چشتی

علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ 14رجب المرجب 537ھ سوموارکو ہر ات میں واقع خراسان و سیتان کے قصبہ سنجر میں نجیب الطرفین حسنی و حسینی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت خواجہ غیاث الدین رئیس شہر اور تجارت کے پیشے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک با اثر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نامی سید ام الورع ماہ نور تھا۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت امام حسنؓ اور والد بزرگوار کی طرف سے سلسلہ نسب حضرت سید الشہدا امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔آپ برصغیر پاک وہند میں بڑے بڑے بزرگوں کے سرحلقہ اور سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔آپ بیس سال تک سفر وحضر میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کی خدمت میںحاضر رہ کر مرشدپاک کے ہاتھوںخلافت کے منصب پر سرفرازہوئے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی پرتھوی راج کے دور حکومت میںاجمیر (ہندوستان)میں تشریف لائے جہاںاس وقت پتھورا رائے اس علاقے کا حکمران تھا۔ اجمیرشریف تشریف لانے کے بعدآپ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ پتھورا رائے اپنی رعایا کیلئے ایک مغرور اور جابر حکمران تھا۔ ایک روز اُس نے آپ کے ایک عقیدت مند کو کسی وجہ سے ستایا۔ وہ بیچارافریاد لے کر آپ کے پاس پہنچا۔آپ نے اُس کی سفارش میں پتھورا رائے کے پاس ایک پیغام بھیجا‘ لیکن اُس نے آپ کی سفارش قبول نہ کی اور اعتراض کرنے لگا کہ یہ شخص یہاں آکر بیٹھ گیا ہے اور غیب کی باتیں کرتا ہے۔ جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اِرشادہوا کہ ہم نے پتھورا زندہ گرفتار کر کے حوالے کر دیا۔اُسی زمانہ میں سلطان معز الدین عرف شہاب الدین غوری کی فوج غزنی سے پہنچی‘ پتھورا رائے لشکر اِسلام سے مقابلہ کے لئے آیا اور سلطان معزالدین کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔اُس کے بعد سے ہندستان میں کفر کے اندھیرے چھٹنے لگے اور اِسلام کا دور دورہ شروع ہو گیا ۔
’’اجمیر‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک ہندو راجہ کا نام ہے جس کی حکومت کی حد غزنی تک تھی۔ آجاہندی میں آفتاب کو بھی کہتے ہیں اور میر ہندی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں‘ ہندوئوں کی تاریخ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہاڑوں پر تعمیر ہونیوالی دیواروں میں سب سے پہلے یہی دیوار تعمیر ہوئی جو اجمیرشریف کے پہاڑ کے اُوپر ہے۔ اِسی طرح سر زمینِ ہند میں جو سب سے پہلا حوض بنایا گیا وہ پھکر کا حوض ہے جو اجمیر شریف سے آٹھ میل دُورہے اور ہندو اُس کی پوجا کرتے ہیں ۔ اور قیامت کے حوالے سے اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت بھی اِسی حوض سے شروع ہوگی۔ پتھورا سب سے آخری ہندوراجہ ہے جس کو مسلمان فاتح کے ہاتھوں شکست ہوئی۔‘ ’’ناگور‘‘ کا اکثر حصہ پتھورا کا آباد کردہ ہے جس کا قصہ یہ ہے کہ پتھورا نے اپنے ایک افسر سے جو جانوروں کے گھاس دانہ کی نگرانی کرتا تھا کہا کہ گھوڑوں کے طویلہ کے لئے کوئی مناسب اور اچھا مقام تلاش کرو وہاںپر شہر میں آباد کروں گا۔ وہ افسر بہت گھوما پھرا‘۔جب وہ اِس جگہ پہنچا جہاں اب شہر ناگور ہے تو اُس نے ایک دنبی کو دیکھا کہ اُس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اور ایک بھیڑیا اُس بچہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تودنبی نے اپنے بچہ کو پیچھے کر کے اُس بھیڑئیے پر حملہ کی تیاری شروع کی۔ اُس نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا کہ یہ مردانہ جگہ ہے اور اِس جنگل کا آب گیاہ گھوڑوں کے لئے مفید ہے۔چنانچہ وہاں ایک شہر آباد کر کے اُس کا نام نوانگر یعنی نیا شہر رکھا۔روایت کے مطابق سلطان شہاب الدین غوری کے ہاتھوں پتھورا مارا گیا تو ترک فوجوں کے زمانہ میں یہ لفظ ناگور بن گیا‘ واللہ اعلم بالصواب۔
آپ کے کلام وملفوظات دلیل العارفین میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے جمع کئے ہیں۔ اِس میں تحریر ہے کہ آپ نے فرمایا: عاشقِ الٰہی کا دِل محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے‘ لہٰذا جو کچھ بھی اُس دِل میں آئے گا جل جائے گا اور نابود ہو جائے گا کیونکہ آتشِ محبت سے زیادہ تیزی کسی آگ میں نہیں۔
اِرشاد فرمایا:بہتی ندیوں کا شور سنو کس طرح شور کرتی ہیں‘ لیکن جب سمندر میں پہنچتی ہیںبالکل خاموش ہو جاتی ہیں۔اِرشاد فرمایا : میں نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کی زبان سے خود سنا ہے‘ فرماتے تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جَلَّ جلالہٗ کے اَیسے اولیاء اللہ بھی ہیں کہ اگر اِس دُنیا میں ایک لمحہ بھی اُس سے حجاب میں آجائیں تو نیست ونابود ہو جائیں۔
اِرشاد فرمایا:میں نے حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی زبان سے سنا ہے‘ فرماتے تھے کہ جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُسے دوست رکھتا ہے‘ اول سمندر جیسی سخاوت‘ دوم آفتاب جیسی شفقت‘ سوم زمین جیسی تواضع۔
اِرشاد فرمایا: نیک لوگوں کی صحبت نیکی کرنے سے بہتر اور برُے لوگوں کی صحبت بدی کرنے سے بدتر ہے۔
اِرشاد فرمایا:مرید اپنی توبہ میں اُس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جب کہ اُس کی بائیں طرف والے فرشتے نے بیس سال تک اُس کا ایک بھی گناہ نہ لکھا ہو۔شیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں، یہ بات اَکابر متقدِّمین سے بھی منقول ہے اور بعض متاخرین صوفیاء نے اِس بات کی حقیقت اِس طرح بیان فرمائی ہے کہ مرید کے لئے ہر وقت توبہ و اِستغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھا جاتا۔یہ مطلب نہیں کہ گناہ اُس سے بالکل سرزد ہی نہ ہو‘ اِسی وجہ سے مشائخِ عظام اپنے مریدوں کو سوتے وقت اِستغفار کی تاکید کرتے ہیں تاکہ دن بھر کے وہ گناہ جو اَبھی تک رحمت ِ الٰہی کی وجہ سے نہیں لکھے گئے کتابت وظہور میں نہ آئیں۔
اِرشاد فرمایا:میں نے حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒکی زبانی سنا‘ فرماتے تھے کہ اِنسان مستحقِ فقر اُس وقت ہوتا ہے جب کہ اِس عالم فانی میں اُس کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ محبت کی علامت یہ ہے کہ فرمانبردار رہتے ہوئے اِس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمہیں دوستی سے جدا نہ کردے۔اِرشاد فرمایا:عارفوں کا بڑا بلند مقام ہے جب وہ اِس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دُنیا ومافیہا کو اپنی دو اُنگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔اِرشاد فرمایا:عارف وہ ہے جو کچھ چاہے تو فوراً اُس کے سامنے آجائے اور جو کچھ بات کرے تو فوراً اُس کی جانب سے اُس کا جواب سن لے۔اِرشاد فرمایا:محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ صفاتِ حق اُس کے اَندر پیدا ہو جائیں اور محبت میں عارف کا درجۂ کامل یہ ہے کہ اگر کوئی اُس کے مقابلہ پر دعویٰ کر کے آئے تو وہ اپنی قوت ِکرامت سے اُسے گرفتار کر لے۔ہم برسوں یہ کام کرتے رہے لیکن آخر ہیبت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ فرمایا کہ تمہارا کوئی گناہ اِتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا کسی مسلمان کی بے عزّتی کرنے سے پہنچے گا۔
اِرشاد فرمایا:پاسِ انفاس اہلِ معرفت کی عبادت ہے اور معرفتِ خداوندی کی علامت یہ ہے کہ مخلوق سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔اِرشاد فرمایا:ولی کو ولایت اُس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ معارف کو یاد نہ کرے اور ولی وہ ہے جو اپنے دل سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے تاکہ وہ بھی اُسی طرح اَکیلا ہو جائے جیسے اُس کا محبوب یکتا ہے۔
اِرشاد فرمایا:بد بختی کی علامت یہ ہے کہ اِنسان گناہ کرتا رہے پھر اِس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ جلَّ مجدہُ الکریم کی بارگاہ میں خود کو مقبول سمجھے اور ولی کی علامت یہ ہے کہ خاموش اور غمگین ہو۔جس نے بھی نعمت پائی وہ سخاوت کی وجہ سے پائی۔درویش وہ ہے جس کے پاس جو بھی حاجت لے کر آئے تو اُسے خالی ہاتھ معدوم واپس نہ کرے اور ولی محبت میں اَیسا شخص ہے جو دو عالم سے دِل ہٹا لے۔در حقیقت صبر کرنے والا وہ ہے جس کو مخلوق سے تکلیف و اَذیت پہنچے لیکن نہ وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے ذکر کرے اور سب سے بڑا ولی وہ ہے جو سب سے زیادہ حیران ہو۔
پھر اِرشاد فرمایا:ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے‘ عیش وعشرت اورراحت کو چھوڑ دے اور اللہ تبارک وتعالیٰ جلَّ مجدہُ الکریم کی یاد سے محبت رکھے۔ ولی وہ ہے جو صبح اُٹھے تو رات کی یاد نہ آئے۔
سب سے بہتر وہ ہے جس کا دِل وسوسوں سے پاک ہو۔اِرشاد فرمایا: علم ایک بے پناہ سمندر ہے اور معرفت اِس کی ایک نالی‘ سو کہاں اللہ جَلَّ جلالہٗ کہاں بندہ‘ علم‘ اللہ جَلَّ جلالہٗ کے لئے ہے اور معرفت بندہ کے لئے۔اہلِ معرفت اَیسے آفتاب ہیں جو تمام عالَم پر درخشاں ہیں اور تمام عالَم اُن کے نور سے روشن ہے۔لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ جَلَّ جلالہٗ کا قرب صرف اُس وقت پاسکتے ہیں جب نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کریں کیونکہ نماز مومن کی معراج ہے۔
بعض محققین کے نزدیک حضرت خواجہ معین الدین اجمیریل کی وفات ۶ رجب المرجب ۶۳۳ہجری کو ہوئی۔ اور اجمیرشریف میں جہاں آپ کی رہائش تھی‘ وہیں مزار شریف بنایا گیا۔ آپ کا مزار مبارک اِبتداً اینٹوں سے بنایا گیاپھر اُس کو علیٰ حالہ باقی رکھ کر پتھر کا ایک صندوق اُس کے اُوپر بنایاگیا۔ اِسی وجہ سے آپ کے مزار کی بلندی پیدا ہوگئی۔ سب سے پہلے آپ کے مزار کی عمارت حضرت خواجہ حسین ناگوریؒ نے بنوائی‘ اُس کے بعد دروازہ اور خانقاہ کسی بادشاہ نے تعمیر کرائے۔ مشہور ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہوا کہ حَبِیْبُ اللّٰہِ مَاتَ فِیْ حُبِّ اللّٰہِ یعنی ’’اللہ پاک کا حبیب اللہ کی محبت میں دُنیا سے سفر کر گیا‘‘۔

ای پیپر دی نیشن