دل نہیں مانتا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کا ہو یا وزیراطلاعات فواد چودھری کا ہو یا سیکرٹری اطلاعات شفقت جلیل کا ہو ، مگر اس فیصلے کے چھینٹے سب پر پڑیں گے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایف ایم 10 کے 18 سٹیشنوں میں سے صرف ریڈیو پاکستان سرگودھا کے ایک سٹیشن کو بند کرنے کا کسی اورسٹیشن کی نشریات کو یہاں سے ریلے کرنے کا فیصلہ مذکورہ بالا ایسے لوگ کریں جنہوں نے عوام سے یہ وعدہ کرکے اقتدار کی مسند سنبھالی ہو کہ وہ حالات کو پہلے سے بہتر کریںگے اور پاکستان کی ثقافت ، حسن، تعلیم، کاشتکاری ، دانش، علم وادب پر حوالے سے اس گراف کو اونچا لے کر جائیںگے مگر ایک میٹنگ میںکئے گئے فیصلوں کی گرد اڑ کر دور دور تک پہنچی ہے جس میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ ایف ایم ریڈیو 101 کے پاکستان میں موجود 18 سٹیشنوں ، اسلام آباد، لاہور کراچی، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، حیدرآباد، ملتان، لاڑکانہ ، مٹھی، بھٹ شاہ ، خیرپور، کوہاٹ ، بنوں، سرگودھا، میرپور اور بہاولپور میں سے صرف سرگودھا کوبند کر دیا جائے۔ جی ہاں سرگودھا، جیسے شاہینوںکا شہر اس لئے کہا جاتا ہے کہ 1965ء کی لڑائی میں اس شہر نے دفاع پاکستان کے حوالے سے فضائی جنگ میں بھرپور کردارادا کرتے ہوئے عالمی سطح پر شہرت پائی تھی ، سرگودھا جو میانوالی بھکر اور خوشاب کے اضلاع کے ساتھ ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے اور بالواسطہ طور پر وزیراعظم کے آبائی علاقوں کی پسماندگی کو دورکرنے کے نعروں کا علمبردارہے سرگودھا جو ہمیشہ مسلم لیگ کا گڑھ رہا اور اب تحریک انصاف کے نمائندوں کو ووٹ دینے ’’غلطی‘‘ کر بیٹھا ہے۔ جی ہاں اسی سرگوھا کی پریس کلب کے باہر، اہم شاہراہوں پر یونیورسٹی سے لے کر کالجوں کے ایوانوں تک ، بزاروں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک ، احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیرآغا کے فکر اور خیالات کی حامل ادبی محفلوں تک حیرانی اور پریشانی کے ساتھ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ 18 ریڈیو سٹیشنوں میں صرف سرگودھا سٹیشن کو بند کرنے کا فیصلہ کس زرخیز دفاع اور حکومت اور ملک و قوم کے کس وفادار کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ جو ان گنت فنکاروں اور دانشوروں سے روزگار بھی چھین لے گا۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ کچھ عناصر بااختیارلوگوں کو کبھی غلط رپورٹیں دے کر، کبھی بچت کی آڑ میں، کبھی بالواسطہ ایک بڑے پرسکون علاقے میں اضطراب پیدا کرنے کی خاطر ، گمراہ کرتے ہیں اور پھر صورتحال حال کو نارمل کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ محنت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ حالات کے تقاضوں کے پیش نظر ہی ماضی میں نجی ایف ایم ریڈیو کے مقابل ایف ایم 101 کی ضرورت محسوس کی گئی تھی پھر ایک کے بعد ایک ریڈیو سٹشن کھولے گئے کیونکہ نتائج مثبت تھے۔ مرکز کے دور کے علاقوں میں ایف ایم ریڈیو میں اطلاعات، تربیت اور شناختی فروغ کا ذریعہ تھے اور پوری دنیا کی طرح پاکستان میں آج بھی ہیں ضرورت اس بات کی تھی کہ ان سٹیشنوں میں ریونیو کے شعبے کوبہتر بنایا جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ سٹیشن بھی ایک طرح سے تعلیمی اداروں کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی افادیت کئی سطح کی ہوتی ہے یعنی، تعلیم بھی، تربیت بھی ، تفریح بھی ، ثقافتی اپ لفٹ بھی اور اس حوالے سے ریڈیو پاکستان سرگودھا(جو سینکڑوں کلومیٹر کے پسماندہ علاقے کو کور کرتا ہے) کی کارکردگی کسی بھی دوسرے علاقائی سٹیشن سے کم نہ تھی۔ صدر پریس کلب سرگودھا مہر آصف حنیف ، شاہین، فاروقی، ممتاز عارف، شہزاد شیرازی، رانا ساجد اقبال، آفاق گوندل، طارق اعوان، رانا اشرف جاود، گجر منیر ملک، اشرف قریشی بینر اٹھائے شہر بھر میں احتجاج کرتے پھرتے ہیں۔ خوشاب بھکر، میانوالی میں بھی احتجاج کی یہی صورتحال ہے تاجر، کسان سیاستدان، شاعر ادیب سب ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ پاکستان کے دفاع میں بھرپور کردار ادا کرنے والے شہر کے ساتھ عوامی حکومت میں تو وہ کچھ نہ کیا جائے جو ماضی میں نہیں ہوا۔اگر ریڈیو پاکستان سرگودھا سے ممتاز عارف کا ’’جمہوری آواز اور چراغ شب‘‘ انعام خان کا ’’شاہین سرگودھا، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا ’’دانش کدہ‘‘ آغا کوثر علی کا سرسنگیت محمود گوندل کا زراعتی پروگرام، اشرف مخدوم ملک کی بانسری نوازی ، نظام دین کی طرح کے کردار منشی قطب الدین سنائی دینا بند ہو جائیں گے تو لوگ کس پر تبصرہ کریں گے۔ کس کو اس تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہریا جائے گا۔ 30 دسمبر 2018ء کو میں نے انہی کالموں میں نیک دل آفیسر وفاقی سیکرٹری اطلاعات اور ڈائریکٹرجنرل ریڈیو پاکستان سے اس وقت کے مسائل کے حوالے سے گزارشات کی تھیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر ریڈیو پاکستان کے حوالے سے کچھ غلط فیصلوں کودرست کرنے کے احکامات جاری کئے۔ اس سے ریڈیو پاکستان سرگودھا سمیت مختلف چھوٹے سٹیشنوں میں جھاڑو پھیرے جانے کا عمل رک گیا تھا۔ میں ایکبار پھر گزارش کروںگا کہ پاکستان میں تعلیم و تربیت ، علم و ادب اور زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت و تجارت کے فروغ اور مقامی ثقافت کو نکھارنے والے ریڈیو پاکستان کے چھوٹے سٹیشنوں کو بوجھ نہ سمجھا جائے۔ ان کی پروگرامنگ کو مزید بہتر بنانے کے اقدامات ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی سٹیشن کی بندش اور خاص طور پر سرگودھا جیسے سٹیشن کی بندش جو ایک وسیع و عریض پسماندہ لیکن تاریخی ورثے کے مسائل علاقوں کی ترجمانی کر رہا ہے عوام کے ساتھ ظلم ہوگا، تحریک انصاف کے منشور کے خلاف ہوگا۔