نعیم رشید تو ہمارے جگر کا ٹکڑا تھے ہی جیسنڈا آرڈن بھی راتوں رات ہمارے دلوں کی ملکہ بن گئیں۔ ان کی مدح میں جوشِ جذبات میں رندھی ہوئی ایسی ایسی گفت گو سننے کو ملی کہ جی خوش ہوگیا۔
معاشرے میں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو رنگ، نسل اور مذہب کے امتیاز میں بعض اوقات حد سے گزر جاتے ہیں اور شرف انسانی کو پامال کردینے سے بھی نہیں چوکتے لیکن اسے مادام جیسنڈا آرڈن کی کرشماتی شخصیت کا اعجاز سمجھنا چاہئے کہ ایسے احباب بھی یہ دعا کرتے دکھائی دیے کہ یا الٰہی! ہم سے ہمارے لیڈر لے لے اور ہمیں جیسنڈا آرڈن جیسی معاملہ فہم اور وسیع النظر حکمران عطا کر دے۔
نیوزی لینڈ کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا تعلق کرکٹ کی دین ہے ،اس سے بڑھ کر ہم نے اس کے بارے میں شاید ہی کبھی سوچا ہو۔ ممکن ہے، یہی سبب رہا ہو کہ کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد بعض مقتدر لوگوں کی زبان سے بھی ایسے کلمات ادا ہوگئے جیسے کرکٹ کے میدان میں مقابلے کی طیش میں مبتلا کسی تماشائی کے ہوسکتے ہیں، بے سوچے سمجھے، نتائج پر غور کئے بغیر، محض جیسے کو تیسا کی مریضانہ سوچ کے عکاس۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ جیسے جیسے واقعات کا طلسم کھلتا گیا، اسی رفتار سے آنکھیں کھلنے کا عمل بھی جاری رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نیوزی لینڈ والے ہمارے دلوں کی دھڑکن بن گئے اور ان کی دھان پان سی وزیر اعظم دلوں کی ملکہ۔ سبب اس کایا کلپ کا یہ ہے کہ تاریخ کی صدیوں پرانی تلخیوں، بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اختیار کیے گئے تکلیف دہ حربوں کی وجہ سے ہمارا زخمی دل تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی مغربی معاشرہ دل داری کی ایسی معراج پر جا پہنچے گا؟
مسجد میں کسی عاقبت نااندیش جنونی کے ہاتھوں جان سے جانے والوں کو اپنا قرار دیا جائے گا، ان کے لواحقین کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا جائے گا، ذرائع ابلاغ سے آذان اور صلٰوۃ و سلام کے روح پرور نغمے بلند ہوں گے اور پارلیمان کی فضا تلاوتِ قرآن حکیم کے معجزاتی نور سے منور ہو جائے گی۔
کرائسٹ چرچ کے سانحے کے بعد سامنے آنے والے ان اقدامات میں سے بیشتر کا تعلق حکومت کے فیصلوں اور ریاستی حکمتِ عملی سے ہو سکتا ہے لیکن زیادہ خوشی اس بات سے محسوس کی گئی کہ آزمائش کے اس مرحلے پر نیوزی لینڈ کے عوام بھی اپنی حکومت کے پہلو بہ پہلو اس طرح کھڑے دکھائی دئیے کہ 2005 ء میں پاکستان میں آنے والے اس زلزلے کی یاد تازہ ہو گئی جس میں کراچی سے خیبر تک کے عوام بالخصوص نوجوانوں میں درد مندی کی ایک برقی رو دوڑ گئی اور لوگ بغیر کسی تحریک کے گھروں سے نکل کر متاثرہ علاوہ میں لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔
اس زاویے سے نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بظاہر ایک جانکاہ صدمے کے بعد کی فوری جذباتی کیفیت دکھائی دیتی ہے جوجذبات کی آندھی اترتے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے بیشتر سانحات کے بعد پیدا ہونے والے جذباتی ابال کے بارے میں عموماً ایسا ہی مشاہدہ سامنے آیا ہے ۔ یہ ایک عمومی روّیہ ہے لیکن جس طرح کے مناظر نیوزی لینڈ میں دیکھنے کو ملے ہیں، جس طرح اس کی قیادت نے صدمے اور جذبات کی شدت کے باوجود بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے اور وہاں کے عوام نے رنگ و نسل اور مذہب کے امتیازات سے بالاتر ہو کر مرنے والوں کا غم منایا ہے اور ان کے لواحقین کے دکھ میں شریک ہوئے ہیں، یہ وقتی جذبات سے مختلف چیز ہے۔اس روّیے میں دوام اور مستقل مزاجی کی ایسی کیفیت محسوس ہوتی ہے جیسی مستقل مزاجی ہمیں دوستی ، بھائی چارے اور تعلق داری کو نبھانے کے سلسلے میں ترک بھائیوں میں نظر آتی ہے۔
مزاج کی ایسی نفاست اور بلوغت مختصر اور لمحاتی نہیں ہوتی بلکہ اس کے پسِ پشت وہ گہرائی اور عظمت ہی ہوسکتی ہے جس کی سخت تربیت سے گزر کر کوئی قوم اپنی شناخت بناتی ہے، اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کے مزاج کی کی اس منفرد خصوصیت کو امنِ عالم اور رواداری کے فروغ کا ایک بہترین ذریعہ بنا دیا جائے۔
موجودہ حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے فوری بعد ہی توہین آمیز خاکوں کا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی حکومت مسلمانوں کی دل آزاری کے اِس سلسلے کے خاتمے کے سلسلے میں زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر کردار ادا کرے گی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ایسے مکالمے کی بنا ڈالے گی جس کے نتیجے میں اقوام عالم مقدسات کے احترام کے بارے میں کسی آبرو مندانہ فیصلے پر پہنچ سکیں۔
یہ حکیمانہ اندازِ فکر تھا لیکن روز مرہ کی سیاست کے جھمیلوں میں یہ عمدہ خیال ترجیحات کی فہرست میں کہیں پیچھے چلا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ آج کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی کسی نے قوم سے کوئی ایسا وعدہ بھی کیا تھا۔
نیوزی لینڈ کا سانحہ بہت دکھ دینے والا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ ایک موقع بھی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اقوام عالم کے درمیان نفرتوں اور عداوت کے خاتمے یا کمی کے لیے مہارت سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اگر چہ کچھ تاخیر ہوگئی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کی طرف سے تعزیت اور یک جہتی کے اظہار کے لیے وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کو ٹیلی فون اس کی اچھی بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل ترک حکومت کی طرف سے بھی شہیدوں کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے نائب صدر کو نیوزی لینڈ بھیج کر اچھی پیش رفت ہوچکی ہے۔ بہت ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنی سیاسی دلچسپیوں کو کچھ دنوں کے لیے التوا میں ڈال کر نیوزی لینڈ چلے جائیں اور وزیر اعظم جیسنڈا کو تجوزیر پیش کریں کہ وہ نفرتوں کے خاتمے اور امن عالم کے فروغ کے لیے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی داعی اور میزبان بن جائیں۔ اس کام کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کرائسٹ چرچ کے صدمے نے اس مکالمے کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔
وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے اپنی معاملہ فہمی اور وسیع النظری سے اقوام عالم کے دلوں میں مستقل جگہ بنا لی ہے ۔ مزید خوش قسمتی کی بات یہ ہے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں سے نفرت آمیز مواد ہٹانے کے بارے میں عالمی سطح پر جتنے بڑے پیمانے پر یکسوئی اس وقت پائی جاتی، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔کیا قدرت کی طرف سے فراہم کیے گئے اس بہترین موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوئی تدبیر کی جائے گی؟
وجدان کہتا ہے کہ قدرت نے جیسنڈا آرڈن کی قسمت میں یہ عزت لکھ ڈالی ہے۔اب ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ بروئے کار آئیں۔ اس نیک مقصد کے لیے سعودی عرب، ترکی اور اسلامی تعاون تنظیم کو بھی ہم سفر بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔
تہذیبوں کے درمیا ن مکالمہ اور جیسنڈاا ٓرڈن
Mar 24, 2019