قرنطینہ اطالوی زبان کے لفظ quaranta giorni سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چالیس دن۔ریکارڈ کی گئی انسانی تاریخ میں 3 بار پلیگ ( بیکٹیریا ) نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا۔ پہلی بار بازنطینی سلطنت کا صفایا 541- 542 AD میں کیا۔ پھر آیا یورپ کا بلیک ڈیتھ جو 1348 عیسوی سے شروع ہوا تو 4 سال میں 25 ملین افراد یعنی یورپ کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کو نگل گیا۔ اس دوران جو تجارتی جہاز شہر وینس کی بندرگاہ پر داخل ہوتے ان پر موجود تاجر اور عملے کے لیے لازم تھا کہ وہ چالیس دن جہاز میں ہی رکے رہیں۔ مقصد شہری آبادی سے دور رکھنا تھا۔ تاکہ اس دوران جس کو پلیگ کا مرض ہے اس کی علامات ظاہر ہو جائیں اور اس کو صحت مندوں سے الگ کر لیا جائے کہ یہ واحد طریقہ تھا باقی انسانوں کو بچانے کا۔
کچھ تہذیبوں تک قرنطینہ کا تصور نہیں پہنچا تھا یا وہ اس پر عمل کرنے پر قادر نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر جب یوروپین 1492 میں امریکا پہنچے جسے وہ امریکہ دریافت کرنا کہتے ہیں تو اپنے ساتھ کئی ایک وائرل بیماریاں لے گئے جن میں خسرہ، چیچک، چکن پاکس وغیرہ شامل ہیں۔ یورپ کے باشندوں کے مدافعتی نظام نے تو ان بیماریوں کو جھیل لیا تھا لیکن بے چارے مقامی امریکیوں کی 90 فیصد آبادی ان بیماریوں سے مر گئی۔ محتاط اندازہ ہے کہ ان بیماریوں سے مرنے والے مقامی امریکیوں کی تعداد 55 سے 60 ملین تھی۔ آج بھی ان کی تعداد کم ہے اور پورے امریکا کی آبادی کا صرف 2 فیصد ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید وائرس سے بچنے کے طریقوں سے ناواقفیت بھی ہو۔
1855 میں تیسرا پلیگ چین اور برصغیر میں پھوٹا جس میں پہلی بار برطانوی فوج نے اس خطے میں باقاعدہ قرنطینہ۔ آئی سولیشن سنٹر۔ نقل و حرکت پر پابندی اور جبری حفظان صحت قوانین نافذ کیے جس کا عوام سے سخت رد عمل آیا لیکن وہی اصول بعد میں برصغیر کے ماڈرن نظام صحت کی بنیاد بنے۔
قرنطینہ انسانی تہذیب جتنا ہی پرانا ہے اس کا تذکرہ صحیفوں میں بھی ہے۔ بنی امیہ کے فرمانرواعبد الملک ابن مروان نے کوڑھ کی وبا کے دوران دمشق میں قرنطینہ بنوایا۔ شہر کو کئی دن کے لیے بند کردیا اور کوڑھیوں کو صحت مندوں سے الگ کرکے دمشق کے قرنطینہ میں منتقل کیا۔
ہمیں قرنطینہ کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ تمام eco system آپس میں ایک دوسرے سے مسلسل برسر پیکار ہے۔انسان کو افزائش نسل کے لیے موافق ماحول درکار ہے اسی طرح وائرس، بیکٹیریا کو زندہ رہنے اور افزائشِ نسل کے لیے حیات ( نباتات ، حیوان، انسان ) کی بطور میزبان ضرورت ہے۔ وائرس بہت چھوٹا ہوتا ہے اس لیے وہ چاہے تو بیکٹیریا کو میزبان منتخب کرے چاہے انسان کو۔ ننھا سا structure ہے اور اس کا کام ہے انسانی خلیے (cell) کی دیوار توڑ کر اپنا جینیاتی مسالہ اندر ڈال کر اس کی کیمیائی مشنری استعمال کرکے مزید وائرس پیدا کرنا المختصر انسانی خلیے کو تباہ کرنا۔ انسانی جسم وائرس سے اس جنگ میں اپنا مدافعتی نظام (T cells. Antibodies ۔ وغیرہ) استعمال کرتا ہے جو وائرس کو detect کرکے مختلف طریقوں سے قابو کرتا ہے۔
اگر وائرس یہ جنگ جیت جائے تو انسان مر جاتا ہے۔انسان جیت جائے تو وائرس پر قابو پا لیتا ہے۔اس سارے عمل میں وائرس اپنی علامات ظاہر کرنے میں وقت لیتا ہے۔COVID-19یعنی کرونا وائرس کی صورت میں یہ وقت 5 سے لے کر 14 دن تک ہے۔ اس کے لیے کم از کم 14 دن سارے شہر کو اپنے اپنے گھر کو ہی قرنطینہ بنا کر رہنا ضروری ہے۔
14 دن بعد صحت مند کو بیمار سے الگ کرکے علاج کے ذریعے بہتر کیا جاسکے گا۔ جسے بیماری سے لڑنا ہے اسے بھی طبی قرنطینہ میں رکھا جائے گا جہاں طبی امداد میسر ہو تاکہ وائرس سے اس جنگ میں باقی انسان اور خود مریض کا اپنا مدافعتی نظام اس کی مدد کرسکے.قرنطینہ میں رہنا ضروری ہے یہ بقائے نسل انسانی کا سوال ہے۔ قرنطینہ نہ ہی قید ہے نہ کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہ ہی چھٹیاں گزارنے کا بہانہ۔
انسانی تاریخ سے سیکھے گئے سبق میں یہ ہی واحد طریقہ ہے انسانی جسم میں داخل ہونے والے ان جانے وائرس سے لڑنے کا۔ کرونا وائرس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اس کی تباہی پلیگ یا تاریخ انسانی میں مختلف وائرس کے ہاتھوں آئی تباہی سے بہت کم ہوگی۔ اس کی ویکسین بھی جلد بدیر جان لیوا وائرس سے بچائو کے لیے مارکیٹ میں آجائے گی۔ لیکن تب تک اس سے بچنے کا واحد طریقہ وہی ہے جو ہزاروں سال کے انسانی تجربوں نے سکھایا۔۔۔ قرنطینہ اور مکمل تنہائی کچھ دن تک۔ جب تک مریضوں کو صحت مندوں سے الگ نہ کر لیا جائے۔
قرنطینہ کیا ہے؟
Mar 24, 2020