داستان ایک عہد کی پاکستان ، نوائے وقت

حمید نظامی اخبارسے متعلق ہر معاملے کی بذات خود دیکھ بھال کرتے۔ اداریہ خود تحریر کرتے‘ شہ سرخی اور دیگر سرخیوں کی جانچ پڑتال کے بعد انکے بارے میں حتمی فیصلہ دیتے کہ لیڈ کیا ہو گی اور فلاں فلاں خبر کتنے کالم کی ہو گی۔ ان کے ایک قریبی دوست حامد محمود‘ اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر تھے گویا وہ حمید نظامی مرحوم کے بزنس پارٹنر تھے۔ حمید نظامی جب تعمیرِ وطن کے محاذ پر سرگرم عمل تھے‘ عساکرِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل ایوب خان نے جمہوریت کی صف لپیٹ کر اکتوبر 1958ء میں ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا۔ یہ ملک پر نافذ ہونے والا پہلا مارشل لاء تھا۔ جناب حمید نظامی نے اس وقت اپنے قلم کو مارشل لاء کے خلاف بھر پور طریقے سے استعمال کیا ملک کے بڑے بڑے اخبارات کے مدیروں کو مارشل لاء کے خلاف کچھ تحریر کرنے کی جرأت نہ تھی۔ جناب حمید نظامی نے پاکستانی عوام کے حقوق کے تحفظ ‘ جمہوریت کی بحالی اور اسلامی اقدار کے احیاء کے لیے اپنی زندگی کو دائو پر لگا دیا۔ حالات کی نزاکت سے گھبرا کر ان کے بزنس پارٹنر شیخ حامد محمود ساتھ چھوڑ کر ان سے الگ ہو گئے۔
مارشل لاء کی گھٹن نے جناب حمید نظامی کو عارضۂ قلب میں مبتلا کر دیا۔ جب وہ بستر علالت پر تھے تو ان کے چھوٹے بھائی جناب مجید نظامی برطانیہ میں نوائے وقت کے بیوروچیف کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے۔ جناب حمید نظامی کے کہنے پر آغا شورش کاشمیری نے جناب مجید نظامی کو لندن فون کر کے پاکستان آنے کا کہا۔ جناب مجید نظامی فوراً وطن واپس آئے۔ بڑے بھائی جناب حمید نظامی سے ملے تو انہوں نے آخری بار آنکھیں کھولیں اور کہا کہ ’’اچھا‘ تم آگئے ہو؟‘‘۔ جناب مجید نظامی نے جواب دیا‘ ’’ہاں! میں آگیا ہوں۔‘‘ اس کے بعد مرحوم نے آنکھیں نہ کھولیں۔
25 فروری 1962ء کو اپنی وفات سے قبل جناب حمید نظامی نے تمام قانونی تقاضے پورے کر کے چھوٹے بھائی مجید نظامی کو اپنا جانشین اور اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔ وفات کے اگلے دن جب نوائے وقت کا شمارہ شائع ہو ا تو جناب مجید نظامی وہ شمارہ لے کر بھائی کے جسد خاکی کے پاس گئے اور وہ تازہ شمارہ ان کے سینے پر رکھ دیا جواس امر کی علامت اور عزم کا اظہار تھا کہ ہم آپ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔
ان دنوں امیر محمد خان آف کالا باغ مغربی پاکستان کے گورنر تھے۔ وہ مرحوم حمید نظامی کے دوست اور مداح تھے۔ وہ فاتحہ کہنے کے لیے جناب مجید نظامی کے گھر آئے۔ بعد میں انہیں گورنر ہائوس میں چائے پر بلایا۔ وہ وہاں گئے تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہا‘ ’’اوپر اللہ کی ذات ہے اور نیچے صدر ایوب خان۔ چنانچہ اگر مجھے کبھی صدر ایوب خان نے نوائے وقت اخبار کو بندکرنے کے لیے کہا تو میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کروں گا‘ اور تم مرد نہیں ہو گے اگر تم اخبار کو اپنے بھائی کی پالیسی کے مطابق جاری نہیں رکھو گے‘‘۔ یہ بات سن کر جناب مجید نظامی نے پورے عزم و استقلال کے ساتھ جواب دیا‘ ’’جناب آپ مجھے انشاء اللہ مرد ہی پائیں گے‘‘۔ چنانچہ جو بھی آمر آیا‘ جناب مجید نظامی نے مردانہ وار ہی اس کا مقابلہ کیا ۔ آپ 1962ء سے 1969ء تک ایوبی آمریت کے خلاف سینہ سپر رہے۔ صدر ایوب خان سے جناب مجید نظامی کی پہلی ملاقات کراچی کے گورنر ہائوس میں ہوئی۔ یہ مارشل لاء کا دور تھا۔ وہاں انہوں نے ایڈیٹرز کو بلایا ہوا تھا۔ وہ خود صوفے پر براجمان تھے اور ایڈیٹروں کے لیے کرسیاں تھیں۔ اس طرح کا ماحول تھا جس طرح استاد کلاس لیتا ہے۔ ایوب خان نے ایڈیٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے غصے سے کہا ’’آپ لوگوں کو اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہیے اور آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے‘‘۔ جناب مجید نظامی نے کہا ’’جان کی امان ہے فیلڈ مارشل صاحب!‘‘۔ ایوب خان مسکرائے اور بولے ’’کہیں!‘‘۔ جناب مجید نظامی نے کہا ’’جب میں اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے‘ شرم کس بات پر آنی چاہیے؟‘‘ ایوب خان کہنے لگے ’’میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا‘‘۔ جناب مجید نظامی نے ایوب خان سے کہا کہ ’’آئندہ آپ کا اشارہ جس کی طرف ہو آپ اس کا نام لیا کریں اور اسے کہا کریں کہ اسے شرم آنی چاہیے کہ اس نے یہ کیا!‘‘۔
حمید نظامی مرحوم کا دور بلا شبہ نوائے وقت کی تاریخ کا ایک یادگار باب تھا۔ ان کے ملکِ عدم سدھارنے کے بعد جناب مجید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت کے تاریخ ساز دور کا آغاز ہوا۔ یہ ایک انتہائی کٹھن دور کی ابتدا تھی۔ صحافتی حلقوں کے بعض عناصر کا خیال تھا کہ نوائے وقت کی طرف سے حکومتی پالیسیوں پر شاید پہلے جیسی گرفت باقی نہ رہ سکے گی مگر اربابِ حکومت ‘ ان کے پیشہ ور حواریوں اور مخصوص ذہن کے صحافتی حلقوں کے ایسے سب اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ ادارہ نوائے وقت کی صحافتی ٹیم کو جناب مجید نظامی کی صورت میں جو نئی قیادت ملی تھی وہ نہ صرف حمید نظامی مرحوم کے نظریات سے پوری طرح آشنا تھی بلکہ وہ اعلیٰ صحافتی روایات کو لے کر آگے بڑھنے کی صلاحیت ‘ ہمت اور جرأت سے پوری طرح آراستہ تھی۔ چنانچہ نوائے وقت جناب مجید نظامی کی زیر ادارت خم ٹھونک کر وقت کے آمر حکمران اور طالع آزمائوں کے لتّے لینے لگا۔ آزادیٔ صحافت کے علمبردار مجید نظامی نے لمحہ بھر کے لیے بھی بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد کو تیز کرنے میں غفلت سے کام نہیں لیا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن