میرا تعلق ایک ایسے اخبار سے ہے جسے قائدکا قرب حاصل رہا جو قائد کے نقش پر چلتا رہا۔ نوائے وقت اور پاکستان کی تاریخ باہم پیوست ہے اور مجھے فخر ہے کہ نوائے وقت وہ اخبار ہے جس نے نظریۂ پاکستان کی آبیاری کے ساتھ حب الوطنی کو فروغ دیا۔ نوائے وقت نے مسلم اور پاکستانی ثقافت کا تحفظ کیا۔ قومی زبان کی ترویج اور تفاخر کا اہتمام کیا۔ جب تک مجید نظامی زندہ رہے، کسی حکمران کی جرأت نہیں تھی کہ وہ نظریۂ پاکستان کو فراموش کر سکے لیکن نظامی صاحب کی رحلت کے بعد بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ثقافت کا تنزل دیکھا، زبان کی بے حُرمتی دیکھی۔ سیاست کے ایوانوں میں جمہوریت اور میرٹ کا خون دیکھا۔ انصاف بکتے دیکھا۔ مجید نظامی مرحوم نے ہماری بھی ایسی تربیت کی ہے کہ جو نوائے وقت کے حقیقی، سچے، کھرے صحافی تھے، اُن کا قلم کوئی نہ خرید سکا۔ مجھے فخر ہے کہ میری تربیت میں مجید نظامی مرحوم کا ہاتھ ہے، اس لئے مجھے بھی سچ کہنے سے کوئی نہیں روک سکا۔ میاں برادران نے اقتدار کے جو آخری 7سال گزارے، اُس میں اُنکے وہ حواری زیادہ شامل تھے جن کا کام چاپلوسی ، خوشامد ، بناوٹ ، ریا کاری اور مکاری تھا۔ اپنے چھوٹے مفاد کیلئے وہ ملک و قوم کے بڑے نقصان پر بھی آمادہ رہتے تھے، چنانچہ میاں برادران نے مفاد پرست عناصر کے ہاتھوں کرپشن کی نئی کہانیاں رقم کیں۔ اس دوران جدت اور قدرت کے شوق میں میاں برادران نے نئے صحافیوں، نئے اینکروں لرز نئے دانشوروں کو سرآنکھوں پر بٹھا لیا ۔ پُرانی فلموں کی طرح معمولی معمولی باتوں پر جذبات اور ایکشن کو برانگیختہ کرنے کیلئے فاسٹ میوزک چلا دیا جاتا تھاتاکہ تھرِل پیدا ہو سکے، یہی نئے نویلے چینلز کے ٹاک شوز کا معیار بن گیا۔ یہ ٹاک شو کم اور مولا جٹ فلم زیادہ لگنے لگے۔ کم علمی اور ادھورے علم کا یہی نقصان ہوتا ہے کہ اُس میں سطحیت زیادہ اور گہرائی ناپید ہوتی ہے۔ دونوں بھائیوں نے خوشامدی کالموں ، ہوشربا سرخیوں اور میک اپ سے لتھڑے ٹاک شوز سے متاثر کرنے والوں کو سر پر چڑھا لیا۔ شریف برادران کی قدم بوسیاں کرنے والوں نے انہیں ’’بہادر شاہ ظفر‘‘ بناکر چھوڑنا تھا لیکن جلاوطنی کی تربیت نے انہیں مفلوک الحال ہونے سے بچا لیا۔ وہ اپنا قارون کا خزانہ بچانے میں کامیاب رہے البتہ اقتدار بری طرح گنوا بیٹھے۔ دولت کی فراوانی اور بیماریوں کے مجرب نسخوں کی وجہ سے ان کی پارٹی ٹوٹنے اور ووٹ مٹنے سے بچ گیا۔ عوام نے انہیں 3بار موقع دیا مگر انہوں نے تینوں مواقع ضائع کر دیئے۔ پاکستانیوں نے 35سالہ اقتدار میں بھی میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے، اقرباء پروری اور کرپشن ہوتے دیکھا تو تبدیلی کی خاطر عمران خان کو ووٹ دے دیا ۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عمران خان کے ہاتھوںمیں حکومت آنے کے بعد عوام کے ساتھ کیا ہو گا، نوکریاں ختم ہو جائیں گی، روزگار تباہ ہو جائینگے، صنعتیں اور فیکٹریاں بند ہو جائینگی۔ لوگ پیسے پیسے اور دانے دانے کو ترس جائینگے، ایک ہی سال میں پاکستانی عوام پس کر رہ گئی۔ کون سے 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں۔ تبدیلی حکومت نے ٹیکس لگا لگا کر عوام کی رگوں میں زہر بھر دیا۔ روزگار کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑا۔ آج یہ صورت ہے کہ ایک جنت نما ملک بند پڑا ہے، موت کا ساسناٹا ہے۔ ٹھیک ہے کہ کرونا سے 185 ممالک متاثر ہوئے ہیں لیکن پاکستان ایک وسیع، زرخیز اور توانا ملک تھا۔ یہاں وسائل کی کوئی کمی نہ تھی لیکن دو سال میں پاکستان میں مسائل ہی مسائل پیدا ہوگئے۔ چین کے شہر ووہان سے کرونا چلا تھا۔ آج ایک ماہ میں چین نے کرونا پر قابو پا لیا اور پاکستان میں بے عقلی، کم علمی اورلاپروائی سے کرونا کے 800مریض ہوچکے ہیں۔ کینسر، سوائن فلو، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور شوگر تو کرونا وائرس سے بھی زیادہ شدید امراض ہیں لیکن شہبازشریف نے حکمت عملی اور تدبیر سے ان پر قابو پایا۔ نواز شریف اور شہبازشریف سے عوام کو بہت شکایات ہیں کہ دونوں بھائیوں نے عوام کو مایوس کیا، اسی وجہ سے عوام نے مجبور ہو کر عمران خان کو ووٹ دیا تھا اگر دونوں بھائی اقربا پروری اور کرپشن نہ کرتے تو عوام کی آنکھوں کا تارہ ہوتے لیکن حکومت کے 2 سال کے تجربے کے بعد عوام ایک بار پھر یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ شریف برادران پھر بھی بہترتھے۔ اب شہبازشریف اگر نیک نیتی سے وطن واپس آئے ہیںتو وہ غور سے سن لیں کہ قدرت نے انہیں موقع دیا ہے کیونکہ حالات شہبازشریف کے حق میں جا رہے ہیں۔ لیکن اپنے سابقہ رویے بدلنے ہونگے۔ ظلم اور کرپشن دونوں سے توبہ کرنی ہوگی۔ اللہ کیلئے سمجھیں کہ پاکستان ایک جنت ہے، اسے جہنم نہ بنائیں۔اس ملک کیلئے کچھ کرکے جائیں۔ عوام کی خدمت کرکے دعائیں پائیں ،اپنا نام امر کرکے جائیں۔
پاکستان ایک جنت، اِسے جہنم نہ بنائو
Mar 24, 2020