کرونا وائرس کی لپیٹ میں پوری دنیا آچکی ہے، ہر ملک اپنے وسائل کے مطابق اس وباء پر قابو پانے کیلئے کوشاں ہے۔ وسائل بھی ایسی وبائوں کے تدارک کیلئے ایک حد تک ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ احتیاطی تدابیر اور ہر شہری کا تعاون وسائل سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل ہی سے کرونا کا تدارک ہونا ہوتا تو اٹلی اس سے محفوظ ہوچکا ہوتا۔ اٹلی میں کرونا چین کے بعد پھیلا مگر اٹلی میں بھرپور وسائل اور حکومت کی پوری توجہ کے باوجود اس پر کنٹرول کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو رہی۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہو رہی ہیں، اٹلی کی آبادی کم، وسائل کی کمی نہیں مگر بیماری کے آغاز پر تعاون نہ کرنے سے مرض بڑھتا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ 80سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ہسپتالوںمیں داخل نہیں کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 10فیصد ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف بھی کرونا سے متاثر ہوچکا ہے۔ کرونا سے پوری دنیا میں تشویش پائی جا رہی ہے مگر جو بے بسی اٹلی میں ہے، وہ کسی اور خطے میں کم ہی ہے۔ اٹلی میں لاشوں کوٹرکوں کے ذریعے آبادی سے دور لے جا کر نذرآتش کر دیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی اس بیماری سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں کرونا بارڈر کے ذریعے ایران اور ایئرپورٹس کے ذریعے برطانیہ و خلیجی ممالک سے داخل ہوا۔ پاکستان میں پہلے مریض کی شناخت 26فروری کو ہوئی اور اس کے بعد اس سے تدارک کے فوری طور پر انتظامات شروع کر دیئے گئے۔ پاکستان میں کرونا کا ایک بھی مریض چین سے داخل نہیں ہوا۔ چین نے ایسے انتظامات کئے اور احتیاطی تدابیر اختیار کیں کہ اب چین کرونا فری ہوچکا ہے۔ پاکستان میں کرونا کے تدارک کیلئے چین اپنی ٹیمیں، آلات اور امدادی سامان بھجوا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کرونا سے محفوظ رہنے اور اس کا پھیلائو روکنے کیلئے وسائل کے مطابق کئے گئے اقدامات مناسب ہیں۔ اس وباء سے چین کی طرح ہم بھی جلد قابو پا سکتے ہیں بشرطیکہ ہر ادارہ، ہر شعبہ اور ہر شہری اپنا کردار ادا کرے۔ حوصلہ افزاء امر یہ ہے کہ مرکزی حکومت، صوبے اور پاک فوج اس معاملے میں ایک پیج پر اور یک جہت ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کرونا پر سیاست کرنے سے احتراز کیا، ان کو کچھ لوگ کرونا پر بھی مرکزی حکومت کے خلاف بیان بازی پر اُکساتے رہے مگر انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ اس معاملے پرسیاست نہیں کریں گے مگر کئی سیاسی قائدین کی طرف سے حکومت کے خلاف بیان بازی ہو رہی ہے، سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ کچھ نے تو افغان مہاجرین کی پرانی ویڈیوز بھی جاری کر دیں کہ یہ تفتان کے کرونا متاثرین ہیں، حقیقت سامنے آنے پر بھی معذرت نہیں کی گئی۔کرونا سے بچائو کی احتیاطی تدابیر میں آئسولیشن یعنی الگ ہو کے رہنا اہم ہے ۔اٹلی میں مکمل لاک ڈائون ہے۔ ہمارے ملک میں مکمل لاک ڈائون کے حالات نہیں ہیں، ہمیں خود اجتماعات میں جانے سے گریز کرنا ہے۔ پاکستان میں کرونا سے ہلاکتوں کی تعداد معمولی اور متاثرین بھی کم ہیں۔ ہر شہری حکومت سے تعاون کرے جو خود شہریوں نے اپنی حفاظت کیلئے ہی کرنا ہے، یہ جاری رہاتو جلد متاثرین میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ اس امر پر بھی اطمینان کیا جاسکتا ہے کہ پانچ مریض صحت یاب ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ صورتحال بہتر ہو رہی ہے البتہ خدشات کے پیش نظر قرنطینہ کے انتظامات بھی مناسب طور پر کئے جاچکے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کی کمی نہیں۔ آج سکول، یونیورسٹیاں ،ہوٹل اور سنیما گھر بند ہیں، ان کو قرنطینہ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ایسے حالات میں ذخیرہ اندوز سرگرم ہو جاتے ہیں۔ خوراک، ادویات اور ماسک کی ذخیرہ اندوزی کی خبریںسامنے آرہی ہیں۔ ایک دو کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو چین کی طرح یہاں بھی ذخیرہ اندوزی کی وباء سے نجات ممکن ہے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر سیاسی مقاصد کیلئے بھی افراتفری پھیلا رہے ہیں، ان کا کردار بھی ذخیرہ اندوزوں سے کم نہیں اور وہ بھی ذخیرہ اندوزوں والے انجام ہی کے حقدار ہیں۔ ایسی وباء کی لپیٹ میں پہلے کبھی بھی بیک وقت پوری دنیا نہیں آئی تھی۔ اب اس سے نجات کیلئے عالمی تعاون اور رابطے بھی جاری ہیں۔ اس سب کے باوجود ہمیں تائب ہونے کی ضرورت ہے۔صہیونیوں نے اعلان کیا کہ کورونا سے چین اور معیشت کی تباہی ان کے مسیحا کی آمد کی علامت ہے، جب تک تیسرا ہیکل سلیمانی تعمیر نہیں ہوگا یہ بیماری ختم نہیں ہوگی ۔ اب کرونا کے حوالے سے صورتحال بھی ملاحظہ کیجئے ، اسرائیل میں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے،وہاں اک دن کے وقفے سے مریضوں کی تعداد میں 45 فیصد اضافہ ہوگیا۔جب یہ دنیا کی تسخیر کے دعوے کررہے تھے اُسوقت اسرائیل میں ابھی وبا پھوٹی نہیں تھی۔
کرونا:پھر بھی استغفار
Mar 24, 2020