عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
eishapirzadah1@gmail.com
کورونا وائرس کا شور پوری دنیا میں سنائی دے رہا ہے، ہر کسی کو اس بات کی تاکید کی جارہی ہے کہ کسی بھی چیز کو چھونے سے احتیاط برتیں اور اگر کسی چیز کو چھو لیا ہے یا کسی سے ہاتھ ملایا ہے تو فورا20 سیکنڈ تک اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔
پیارے بچو !کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا ؟سب سے پہلے اس وائرس کے شکار افراد چین میں نظر آئے ،چونکہ یہ وائرس چھونے سے اور چھینکنے سے پھیلتا ہے اس لیے بہت تیزی کیساتھ یہ پورے چین میں پھیل گیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ کے اندر اندر اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،پاکستان بھی اس وائرس سے متاثرہ ممالک میں شامل ہو چکا ہے اور تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ اب پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے5 اپریل تک بند ہیں تاکہ بچے گھروں تک محدود ہو کر رہ سکیں۔
بچوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنا زیادہ مشکل ہے، کیونکہ یہ کسی ایک جگہ پر قید ہو کر نہیں رہ سکتے اور اگرچھٹیاں ہوں تو ان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ گھر سے باہر سیر کے لیے نکلا جائے، محلے کے دوست بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی جائے، مگر اس بار کی چھٹیوں کی نوعیت مختلف ہے اس بار والدین ا نھیں گھر سے باہر نہیں جانے دے رہے، یہ گھر میں رہ رہ کر بور ہو چکے ہیں نہ کوئی آ رہا ہے نہ یہ کہیں جا رہیں ہیں، ایسے میں کچھ ضدی بچے والدین کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں اورگلی میں کھیلنے نکل جاتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ ان ڈور گیمز کا اہتمام کیا جائے، تاکہ انھیں گھر پر ہی تفریح مہیا ہو اور وہ گھر سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں۔
ساتھ ہی ساتھ والدین بچوں میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ دھونے کی تلقین کریں، بلکہ زبردستی اپنی نگرانی میں بچوں کے ہاتھ دھلوائیں۔ہاتھ دھونے کا بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ کو جراثیم کش محلول سے تقریبا بیس سیکنڈ تک مل مل کر دھوئیں، اس سلسلے میں میڈیا پر خصوصی آگاہی مہم چلی ہوئی ہے جس میں ہاتھ دھونے کا صحیح طریقہ بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹائزر بھی گھر میں رکھیں، بار بار ہاتھ دھونے سے اگر بچوں کو کوفت ہونے لگے تو وہ اسے ہاتھوں میں مل سکتے ہیں، چراثیم مارنے کا یہ بھی ایک فائدہ مند طریقہ ہے۔ سینیٹائزر مارکیٹ میں دستیاب نہ ہونے کے سبب گھر پر بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
جو والدین گھر سے باہر کام کے سلسلے میں جا رہے ہیں یا کسی بھی دوسری وجہ کی بناء پر ان کا گھر سے نکلنا ہو تو انھیں چاہیے کہ گھر داخل ہوتے ساتھ ہی بنا کسی چیز کو چھوئے سیدھا واش روم کی طرف جائے اور اپنے ہاتھ منہ اچھی طرح دھوئیں ساتھ ہی اپنا لباس بھی تبدیل کریں۔ اس کے بعد آپ بچوں کو یا گھر کی کسی شے کو ہاتھ لگائیں۔ شیر خوار بچوں کو وائرس سے محفوظ رکھنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ نہ ہی وہ دستانے پہن سکتے ہیں،نہ ہی سینیٹائزر استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں ماسک پہنایا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ منہ میں بار بار ہاتھ چوستے ہیں،ایسے میں والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے خاص کر ایک ماں کی جس نے بچے کو اٹھانا ہوتا ہے اس کا خیال رکھنا ہوتا ہے وہ صفائی کا زیادہ خیال رکھے، کسی سے ہاتھ نہ ملائے،اگر وہ ورکنگ لیڈی ہے تو گھر داخل ہوتے ساتھ ہی سب سے پہلے حفاظتی اقدامات اختیار کرے۔ ووہان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک سالہ بچہ جو کورونا وائرس کا شکار تھا کو قرنطینہ میں دکھایا گیا۔ بچہ ایک ایسے کمرے میں بند تھا جہاں ایک سمت میں شیشے کی دیوار بنی تھی تاکہ تنہائی میں وہ گھبرا نہ سکے اور باہر کے منظر کو دیکھتا رہے، ایسے میں اس بچے کا باپ بچے سے ملنے آتا ہے مگر اسے اندر نہیں جانے دیا جاتا، لہذا باپ وہیں شیشے کے پار ماسک پہنے کھڑا بچے کو پچکارنے اور بلانے لگتا ہے، باپ کو سامنے د یکھ کر بچہ ایک دم شیشے سے چپک کر اپنے ہاتھ باپ کے طرف اٹھاتا ہے تاکہ اسے اس کے والد گود میں اٹھائیں مگر درمیان میں حائل شیشے کی بنا پر باپ انتہائی بے بسی کی حالت میں رونے لگتا ہے جسے بچہ بہت حیرانگی سے دیکھنے لگتا ہے۔
اس ویڈیو کو دیکھ کر تقریبا تمام والدین اس بیماری سے پناہ مانگنے لگے ۔ میں بھی ایک ماں ہوں اور اس ناطے مجھے خود سے زیادہ اپنے شیر خوار بچے کی فکر ہے کہ کس طرح اسے اس مشکل وقت سے محفوظ رکھا جا سکتے ۔بچے چاہے جس عمر کے ہوں انھیںاپنی حفاظت آپ کرنے کی عادت نہیں ہوتی لہذا بچوں کی حفاظت مکمل طور پر والدین کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کو سمجھائیں کہ ہم نے کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔