پوٹھوہار کے ’’یاد گار لوگ‘‘

کرم حیدری کا شمار خطہ پوٹھوہار کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے انہوں نے’’ سرزمین پوٹھوہار ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے پوٹھوہار کی حدود کا تعین کیا ہے انہوں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ گوجر خان کے رہنے والے لوگ اسی قطعہ اراضی کو خالص پوٹھوہار کا علاقہ قرار دیتے ہیں جب کہ یہ علاقہ راولپنڈی سے مشرق میں گذرنے والے دریائے سواں اور گوجرخان سے مشر ق میں بہنے والے نالہ کاہنسی کے درمیان واقع ہے لیکن کچھ لوگ ضلع راولپنڈی کی دو تحصیل گوجر خان ، راولپنڈی اور کہوٹہ کے میدانی علاقہ کو ’’پوٹھوہار ‘‘ سمجھتے ہیں آج تعلیم یافتہ لوگ دریائے جہلم سے لے کر دریائے سندھ تک اور مری کے پہاڑوں سے لے کر سون سکیسر کی پہاڑیوں تک پھیلے علاقے کو پوٹھوہار قرار دیتے ہیں خطہ پوٹھوہار کے سپوت جاوید چشتی کا پوٹھوہار کے ’’یاد گارلوگ‘‘ کے عنوان سے خاکوں کا مجموعہ شائع ہو ا ہے جن میں پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا تذکرہ کیا ہے کتاب میں پروفیسرڈاکٹر ساجد الرحمن، راجہ محمد ظفر الحق ، راجہ پرویز اشرف ، محمد نصیر زندہ ، راجہ انور،قمر الاسلام ، راجہ محمد صدیق ، افتخار احمد وارثی ، شوکت محمود بھٹی ، راجہ منور حسین اور بابو محمد عارف سمیت 51شخصیات کے خاکے شامل ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں نام پیدا کیا ہے ’’یادگار لوگ ‘‘ میں جن شخصیات کا تذکرہ ہے ان میں سے چند ایک کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوںمحمد جاوید چشتی نے بڑی محنت سے خطہ پوٹھوہار کے یادگار لوگوںکے تذکروں کو کتابی شکل دی ہے ان میں ادب کی چاشنی بھی ہے اور صحافت کا رنگ بھی کلر سیداں میں میرے دوست دلپذیر شاد مرحوم ہوا کرتے تھے انہوں نے پوٹھوہاری ادب کو فروغ دیا ،اکرام الحق قریشی نے شعبہ صحافت میں نام پیدا کیا اس کتاب میں ان کا تذکرہ تلاش کرتا رہا لیکن اس کمی محسوس کی کتاب کے آغاز میں پروفیسر ڈاکٹر ساجد الرحمنٰ کا خاکہ ہے کافی عرصہ سے ارادت ہے ان کا شمار خطہ پوٹھوہار کے جید علما کرام میں ہوتا ہے وہ اپنے علاقے کے عوام میں دینی علم کی شمعیں روشن کر رہے ہیں مذہبی حلقوں انہیں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ بگھار شریف کے پیر طریقت کی حیثیت سے خطہ پوٹھوہار میں رشد ہدایت کے دیپ جلا رہے ہیں بگھار شریف کا قصبہ عوام کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہ ملک کے واحد تحقیقات ادارے تحقیقات اسلامی جو1962ء کے آئین کے تحت قائم کیا گیا سے وابستہ رہے اور ادارہ کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی میں اہم عہدوں پر فائز رہے خانقاہی نظام کے اہم رکن کی حیثیت سے وہ خانقاہی نظام کے کردار سے مطمئن نظر نہیں آتے وہ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں ان کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے ان کے بار
میں خاکہ میں اختصار سے تشنگی محسوس ہوتی راجہ محمد ظفر الحق سے نیاز مندی میں بھی کم و بیش نصف صدی گذر گئی ہے بلا شک وشبہ راجہ محمد ظفر الحق خطہ پوٹھوہار کی شان ہیں جوانی میں جناح کیپ اور شیروانی ان کا پیرہن تھا بلکہ ان کی شخصیت کا حصہ تصور کئے جاتے تھے وہ سوٹ بھی پہنتے ہیں لیکن کبھی کبھی موقع محل دیکھ کر میں ان کی جوانی کا دور دیکھا ہے جن لوگوں نے انہیں جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس دیکھا ہے وہ آج بھی ان کی شخصیت کے حسن کو اس لباس میں تلاش کرتے ہیں راجہ محمد ظفر الحق کا شمار پاکستان کے ان مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ہے سوبھاش چند بوس کی قائم کردہ’’ انڈین نیشنل آرمی‘‘ میں جنرل شاہ نواز مرحوم کا کلیدی کردار تھا ان کا تعلق بھی راجہ محمد ظفر الحق کے عسکری پس منظر رکھنے والے قبیلے سے تھا راجہ صاحب نے مادر ملت فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لیا انہوں نے جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں پیر صاحب پگارا کے نمائندے کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی انہوں نے50ء کے عشرے میں پاکستان مسلم لیگ کے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا آج اپنے کردار و عمل کی وجہ سے ان کے پاس پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین کا منصب ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آئین میں اس عہدہ کو مرتبہ کے لحاظ سے صدر پر فوقیت دی گئی ہے یہ عہدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی جلاوطنی کے موقع پر خاص طور راجہ محمد ظفر الحق کے لئے تخلیق کیا گیا جو آج تک قائم ہے ۔ راجہ محمد ظفر الحق اپنی70سالہ بے داغ سیاسی زندگی میں اہم عہدوں پرفا ئز رہے ان کے پاس وزارت اطلاعات و نشریات ، مذہبی امور کے قلمدان رہے وہ مصر میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں . سینیٹ میں قائد ایوان و حزب اختلاف کے فرائض انجام دینے کا بھی اعزاز حاصل ہے ان کے شاندار پارلیمانی کیریئر کے باعث انہیں دوسری بار سینیٹ آف پاکستان میں قائد حزب اختلاف بنایا گیا ہے۔ راجہ محمد ظفر الحق پچھلے 20سال سے موتمر عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں ۔انہوں نے لا تعداد بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے انہیں عالم اسلام میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کی مسلم لیگ(ن) وابستگی، سیا سی کردار کی پختگی اور میاں نواز شریف سے وفاداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کے عوض ’’سرکاری مسلم لیگ‘‘ کی صدارت اور وزارت عظمیٰ کی پیشکش ٹھکرا دی انہیں کہا گیا کہ اگر وہ یہ پیشکش قبول کر لیں تو دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی بھی سربراہی ان کی منتظر ہو گی لیکن انہوں نے جنرل(ر) پرویز مشرف کی ’’نوکری‘‘ کرنے سے انکار کر دیا پرویز مشرف راجہ محمد ظفر الحق سے اس حد تک ’’ناراض‘‘ ہوئے کہ انہیں 2002ء کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں قدم رکھنے نہیں دیا اسے قدرت کا انتقام کہیے یا کچھ اور آج پرویز مشرف کے لئے پاکستان کی سرزمین تنگ ہوگئی ہے لیکن راجہ محمدظفر الحق کا پارلیمنٹ میں طوطی بول رہا ہے اور پارلیمان میں ان کی آواز گونج رہی ہے
راجہ پرویز اشرف کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے انہوں نے 1970میں پاکستان پیپلز پارٹی جائن کی پھر اسی کے ہو کر رہ گئے جنرل پرویز مشرف کے دبائو میں ’’پٹریاٹ‘‘ بنائی اور نہ ہی ان کے پائے استقلال میں لغزش آئی یہی وجہ ہے جب سپریم کورٹ نے سید یوسف رضا گیلانی کو ’’ حکم عدولی‘‘ پر ’’نا اہل ‘‘ قرار دے دیا تو’’ ہما ‘‘ راجہ پرویز اشرف کے سر بیٹھ گیا انہیں بقیہ مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا راجہ پرویز اشرف کا آبائی گائوں نوری راجگان ہے ان کے ماموں کرنل اشرف ممبر پارلیمنٹ رہے ہیں انہوں نے اپنے نام کا حصہ بھی اشرف کو بنا لیا آج وہ پرویز اشرف کے نام سے پہچانے جاتے ہیں وہ سانگھڑ کے جلسہ میں ذوالفقار علی بھٹو پر قاتلانہ حملے میں جرات کا مظاہرہ کرنے پر ان کی شخصیت کے گرویدہ ہو گئے وہ نور جہاں ، لتا منگیشکر اور مہدی حسین کی آواز کے دلدادہ ہیں وہ فرصت کے لمحات میں حضرت میاں بخش ؒکا کلام بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔راجہ محمد انور میرے ہم عصر ہیں ہم دونوں نے سٹوڈنٹس سیاست سے اپنے کیرئر کا آغاز کیا راجہ محمد انور گارڈن کالج راولپندی سٹوڈنٹس یونین کے نائب صدر تھے جب کہ میں گورنمنٹ کالج پوسٹ گریجویٹ اصغرمال راولپنڈی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری چونکہ راجہ محمد انور کا شروع دن سے جھکائو بائیں بازو کی طرف تھا اور میں دائیں بازو کی سوچ رکھتا تھا ہمارے سیاسی راستے الگ ہونے کے باوجود آج بھی ایک دوسرے سے ذاتی سطح پر تعلقات قائم ہیں ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں انہوں نے پچھلے دنوں عمرہ کی ادائیگی کی اور اللہ تعالی سے رجوع کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا درکالی شیر شاہی کلر سیداں سے تعلق رکھنے والے راجہ محمد انور نے صحافت اور سیاست میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے انہوں نے کابل کی ’’پل چرخی‘‘ میں اڑھائی سال قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں 1984میں قید سے رہائی کے بعد جرمنی آگئے جہاں کافی عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی بسر کی ۔ انہوں نے بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک ،جھوٹے روپ کے درشن،ہمالہ کے اس پار ، چلتے ہو تو کابل چلو ، ٹریجڈی آف افغانستان تحریر کیں انہوں نے افغان تاریخ اور انقلاب پر مستند کتاب لکھی جو ان کی رہائی پر1988 ء میں برطانیہ ، امریکہ ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں بیک وقت شائع ہوئی اس کتاب کا پیش لفظ مشہور زمانہ مصنف پروفیسر فریڈہالی ڈے نے لکھا سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور محترمہ بے نظیر بھٹو ان کے شاگردوں میں شامل ہیں اس کتاب کو یورپ اور امریکہ کے اساتذہ نے مسئلہ افغانستان پر مستند کتاب قرار دیا ہے راجہ محمد انور نے جیل میں ’’terrosit prince {{ لکھی’’ الذوالفقار‘‘ تنظیم
پر شہرہ آفاق کتاب لکھی یہیں سے ان کے پیپلز پارٹی سے راستے الگ ہو گئے ذوالفقار علی بھٹو سے کوچہ سیاست کے رموز سیکھنے والا آج میاں نواز شریف کی سیاست کا گرویدہ ہے جرمنی میں طویل عرصہ تک جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد وطن عزیز میں واپس آگئے ہیں لیکن سیاست میں وہ مقام حاصل نہ کر سکے جس کے وہ مستحق تھے
انجینئر قمر الا سلام راجہ نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز مسلم لیگ (ن) کیا ہے لیکن بہت جلد پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے چوہدری نثار علی خان کے پاکستان مسلم لیگ سے راستے الگ ہونے کے بعد ان کے لئے مسلم لیگ (ن) میں بڑی گنجائش پیدا ہو گئی وہ بھی نیب کا شکار بن چکے ہیں اس وقت پوٹھوہار میں مسلم لیگ(ن) کے کرتا دھرتا ہیں راجہ محمد صدیق سکہ بند کشمیری ہیں ان کی سیاست کا مرکز ضلع اٹک اور گردونواح کا علاقہ ہے جہاں سے وہ آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے حلقہ جموں 6کا انتخاب لڑتے ہیں ان کے والد 1947ء میں مقبوضہ کشمیر کی تحصیل راجوری سے ہجرت کر کے کیمبل پور(اٹک) میں آباد ہوئے مسلم کانفرنس سے وابستہ رہے وہ اٹک میں مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما ہیں بیول سے تعلق رکھنے والے افتخار احمد وارثی نے مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم پر اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے محمد جاوید چشتی نے نثار تنویر کا خاکہ بھی لکھا ہے قومی اسمبلی کی خاتون رکن کی حیثیت سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ان کا شمار پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ان خاتون رکن قومی اسمبلی میں ہوتا ہے جنہوں نے قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات ، توجہ دلائو نوٹس اور تحاریک کے ذریعے پارلیمنٹ میں اپنا نام پیدا کیا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ان کی قدر نہ کی کتاب میں محمد نصیر زندہ کا خاص طور پر ذکر ہے جن کا اوڑھنا بچھونا اردو ادب و شاعری ہے شوکت محمود بھٹی کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنمائوں میں ہوتا ہے بابو محمد عارف کا شمار گائودر چوآخالصہ کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری عمر علاقے کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے وقف کر دی میرے دوست راجہ نوید کے ہمراہ ان سے ملاقات ہوتی رہی ہے دیرینہ مسلم لیگی کارکن ہیں ان کا راجہ محمد ظفر الحق سے قریبی تعلق ہے محمد جاوید چشتی نے اس کتاب کے آخری خاکہ میں مائوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنی عظیم ماں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ محمد جاوید چشتی نے نامور اور گمنام شخصیات کے خاکوں کے ذریعے پوٹھوہار کی سیاست اور ثقافت کا نقشہ کھینچا ہے پوٹھوہار مردم خیز خطہ ہے پوٹھوہار میں میدان حرب ،سیاست اور ادب میں نامور شخصیات پیدا کی ہیں لہذا مزید شخصیات کے خاکے بھی لکھے جا سکتے تھے ’’یادگار لوگ‘‘ سے جہاں پوٹھوہار کی سیاست و ثقافت سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے وہاں اس کتاب سے خطہ پوٹھوہار کے مسائل سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی جس طرح نوجوان صحافی فیصل عرفان نے ’’پوٹھوہاری اکھانڑ‘‘ لکھنے بعد ’’پوٹھوہاری گیت ‘‘پر قلم اٹھایا ہے محمد جاوید چشتی کو پوٹھوہار کے ’’یادگار لوگ‘‘ جلد دوم کی تیاری شروع کر دینی چاہیے ۔

ای پیپر دی نیشن