کینال روڈ پر جیسے ہی ایک گاڑی والے شوخے نے مجھے بائیں طرف سے اچانک زوں کر کے اوور ٹیک کیا تویکدم میرا ’’تراہ ‘‘نکل گیا۔ویسے تو اپنی گاڑ ی میںدفتر آتے جاتے روزانہ کی بنیاد پر میرے اسی’’ طرح ‘‘کے چار پانچ’’تراہ ‘‘نکلنا معمول کی بات ہے۔ مگر اس ’’تراہ‘‘ کے بعد مجھے اس وقت شدید تپ چڑھ گئی جب میری نظر اس گاڑی کی بیک سکرین پر پڑی جہاں جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ’’بابا ڈر گیا‘‘ ۔مجھے لگا جیسے گاڑی والے نے یہ الفاظ خاص طور پر مجھے چڑانے کے لئے لکھوائے ہوں۔ غصے میں ایک بار تو میرے دل میں آئی کہ گاڑی کا فُل ایکسیلیٹردبا کر اسی طرح غلط سائیڈ سے اس گاڑی کو اوورٹیک کرکے اس ’’چول ‘‘کا بھی تراہ نکالوں اور پھر فلمی انداز میں ا پنی گاڑی کو سائیڈ والے دو پہیوں پر چلاتے ہوئے اس کی گاڑی کیساتھ لگا کر اونچی آواز میں اسے کہوں ’’ بابا ہوگا تیرا باپ ‘‘۔مگر پھر میں نے یہ سوچ کر اپنا ارادہ ترک کردیا کہ’’ کمینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی،نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی‘‘۔یوں بھی میرا معمول ہے کہ میںکسی ہلکے یا ’’ہلکے ہوئے‘‘ شخص سے سامنا ہونے پر اس کے منہ لگنے کی بجائے ہمیشہ اپنی عزت بچانے کو ترجیح دیتا ہوںاور یہاں تو عزت کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی گاڑی بھی پیاری تھی جسے میں پچاس سے اوپر کی رفتار پر چلا کر کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتا بھلے اس کے لئے مجھے اپنے بیوی بچوں سمیت دنیا جہان سے بزدلی کے طعنے اور اپنے پیچھے آنے والی گاڑیوں کے لگاتار ہارن ہی کیوں نہ سننے پڑیں ۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں یہاں تو قدم قدم پر اس طرح کے’’ انھے واہ ‘‘پاگلوں سے ’’واہ‘‘ پڑتا رہتاہے اب بندہ ہر کسی کے منہ تو نہیں لگ سکتا۔ رہی بات میری اپنی ذات کی تو اس معاملے میں مجھے تو شاید پیروں فقیروں کی کوئی خاص دعا ہے کہ لڑکپن سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی ایسادن ہو جب گھر سے نکلنے سے واپسی تک میراکسی نہ کسی ’’چول‘‘سے واسطہ نہ پڑے ۔ ہمارا ملک کسی اور شے میں خود کفیل ہو یا نہ ہو خیر سے ان چولوں کی یہاں اس قدر بہتات ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں چاولوں کے ساتھ ساتھ اگرہم ان ’’چولوں‘‘ کوبھی وسیع پیمانے پر بیرون ممالک برآمد کر یں تو اچھا خاصا زرِ مبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا زرِ مبادلہ بچا بھی سکتے ہیں۔جو لوگ پنجابی زبان و بیان کی باریکیوںسے ناواقف ہیں یقینا لفظ ’’چول‘‘ پڑھ کر وہ الجھن کا شکار ہو رہے ہونگے ان کی آسانی کے لئے عرض ہے کہ بقول معروف مزاحیہ شاعر خالد مسعود ’’چول پنجابی زبان کا ایک ایسا لفظ ہے جس کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اسے صرف دیکھا جاسکتا ہے یا دوسروں کودکھایا جاسکتا ہے‘‘۔ اس کے لئے کوئی خاص تردد بھی نہیں کرنا پڑے گا اس لئے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں ہمارے ارد گردزندگی کے ہر شعبے میں ان کی بھر پور نمائندگی ہے۔ ان کی جنس ،عمر، حیثیت اور شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن یہ طے ہے کہ ان سب کا ’’مقصدِ واہیات‘‘ ایک ہی ہے اور وہ ہے کسی رکھ رکھائو یا لحاظ کے بغیر لگاتار’’ چولیں‘‘ مارنادراصل چول کسی قوم ،قبیلے، ذات یا فرد کا نام نہیں ہے یہ ایک خاص قسم کی کیفیت ہے جو کسی وقت کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک اچھا خاصا سمجھدار اور سلجھا ہوا آدمی بھی بعض اوقات کوئی چول مار دیتا ہے لیکن کسی بھی عادی چول کے مقابلے میںیہ وہ معصوم چول ہوتے ہیں جنھیں چول مار نے کے بعد دوستوں یا ضمیر کے احساس دلانے پر اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے یہ حادثاتی چول ہوتے ہیں جو کوئی بھی چول جان بوجھ کر نہیں مارتے بلکہ یہ چول ان سے سرزد ہوجاتی ہے۔ اگر یہ اپنی اس کمزوری پر بروقت قابو نہ پائیں تو آہستہ آہستہ یہ بھی باقاعدہ سند یافتہ چول بن جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ایک فل ٹائم چول ہوتے ہیں چولیں ان کے خمیر کا حصہ ہوتی ہیں یہ جہاں جس محفل میں بھی جاتے ہیں ان کا چول پن ہی ان کا اصل تعارف ہوتا ہے حتیٰ کہ ان کی غیر حاضری میں بھی ان کے جاننے والے ان کا ذکر ان کے اصل نام کی بجائے انہیں چول کہہ کر کرتے ہیں ۔یہ اتنے چول ہوتے ہیں کہ جاننے والوں میں اپنے بارے چول ہونے کے تاثر کا علم ہونے کے باوجود اس پر کوئی شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے اُلٹا اپنے چول پن پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ایک طرح سے انہیں خاندانی چول بھی کہا جاسکتا ہے ان کے نزدیک عزت بے عزتی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔یہ ایسے ڈھیٹ چول ہوتے ہیں جن سے بڑے بڑے چول بھی پناہ مانگتے ہیں سادہ لفظوں میں آپ انہیں چولوں کا چول بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس ساری گفتگو کے بعد گزارش ہے کہ آپ بھی اپنے آس پاس زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک ریڑھی والے سے لیکر تاجروں، سیاستدانوں، صحافیوں، ادیبوں اور سرکاری ملازموں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ کے ارد گرد کیسے کیسے چول ہیں جو اپنے جھوٹ،فریب،بد دیانتی،ظلم ،زیادتی ، ناانصافی اور لوٹ مار جیسی چولوں سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔اگر یہ سب دیکھ کر آپ کا دل کڑتا ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کا ضمیر زندہ ہے اوراگر ان سب خرابیوں کے باوجودآپ اپنے ارد گرد کے حالات سے پوری طرح مطمئن ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ بذات خود بہت بڑے چول ہیں اور آپ کو علاج کے لئے فوری طور پر تھانے مارکہ اینٹی چول ویکسیین کی ضرورت ہے۔
نامعقول رویے
Mar 24, 2021