میں اپنے ایک پبلشر دوست کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ معروف اداکار علی اعجاز اس سے ملنے آیا۔ علی اعجاز نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور ہر فلم کامیاب رہی۔ اس نے پی ٹی وی کے ڈراموں سونا چاندی، شیدا ٹلی اور خواجہ اینڈ سن میں بھی کام کیا جو بہت مقبول ہوئے۔
اس نامور فنکار کو جس حالت میں دیکھا تو پریشان ہوا کہ یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ مالی مدد کے لیے آیا تھا۔ میرے دوست نے چند نوٹ اس کو تھمائے اور مجھے کہا کہ اس کو رکشے میں بٹھا آؤ۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا، اس لیے چلنے میں اسے دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ میرے دوست کا آفس پہلی منزل پرتھا۔ علی اعجاز کا ہاتھ پکڑے میں نے اسے سیڑھیوں سے نیچے اتارا۔ رکشے تک جاتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔ مقبولیت اور اتنی دولت کمانے کے بعد اس حالت تک کیسے پہنچے؟علی اعجاز نے اپنی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا۔ جس طرح تم مجھے رکشے میں بٹھانے کے لیے لے جا رہے ہو۔ ایک روز میں رکشے کے لیے کھڑا تھا۔ قریب سے دو سٹوڈنٹ گزرے۔ انھوں نے کہا۔ ’’وہ دیکھو علی اعجاز‘‘ انھوں نے مجھ سے پوچھا۔ یہاں کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا۔ رکشے کے انتظار میں۔ ایک نے دوسرے سے کہا ’’چل اینوں رکشا لیا دئیے‘‘ میںرکشے میں بیٹھنے لگا تو انھوں نے کہا ’’ایکٹراں دا انجام چنگا نہیںہوندا‘‘ رکشے میں بیٹھ کر میں رونے لگا۔ رکشے میں بیٹھتا ہوں تو رکشے والا پوچھتا ہے۔ ’’علی اعجاز جی! کاراں کتھے نیں؟ تسیں تے بادشاہی کیتی‘‘ رکشے والوں کو میں کیا جواب دوں۔ سید گیلانی ہوں۔ بزرگوں کی اولادہوں مگر میری بیوی اور بچوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ علی اعجاز کی بیٹی نہیں۔ دو بیٹے ہیں۔ وہ حسرت سے کہتا ہے کہ کاش میری ایک بیٹی ہوتی تو مجھے اس طرح دربدر کی ٹھوکریں نہ کھانا پڑتیں۔ علی اعجاز میٹرک پاس تھا مگر اس کی بیوی کی تعلیم زیادہ تھی۔ یہ لو میرج تھی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اللہ نے اس کو حُسن سے بھی نواز رکھا تھا۔ عروج کے زمانے میں وہ میری پوجا کیا کرتی۔ جب فالج کا حملہ ہوا اور میں اداکاری کے قابل نہ رہا تو میری بیوی نے بے رُخی اختیار کرلی اور بول چال بند کردی۔ میرا کمرہ بھی الگ کر دیا گیا یعنی چھت کے اوپر جسے برساتی کہا جاتا ہے، اس کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ کوٹھی کامالک برساتی کمرے میں رہنے لگا۔ وہاں پیڈسٹل فین اورہاتھ کا پنگھا میرے پاس ہوتا۔
علی اعجاز کا کہناتھا کہ میرے لیے سیڑھیاں بھی الگ بنوالی گئیں۔ کوٹھی کے اندر والی سیڑھیاں میں استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ بیٹوں نے بھی ساتھ نہ دیا۔ میں نے بیٹوں کو بیرون ملک تعلیم دلوائی۔ مکان بنا کر دیا۔ جب گھر جاتا ہوں تو بیوی اور بیٹے ساتھ نہیں بیٹھتے۔ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھتا ہوں تو سب اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ پھر میں اوپر کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ وہاں ایک لوہے کی چارپائی ہے، بان کی بنی ہوئی، جس پر میں سوتاہوں۔ مجھے کھانا دینے کوئی نہیں آتا۔ خود ہی کھانا تیار کرتا ہوں۔ صبح چائے کے ساتھ رس کھا لیتاہوں رات کو دودھ کے ساتھ بند کھا کر سو جاتا ہوں۔ میں اپنے کپڑے خود دھوتا ہوں۔ نوکر بھی لفٹ نہیں کراتے۔ میں اپنا نوکر خودہوں۔ اکثر دوست ملنا چھوڑ گئے، اس خیال سے کہ کچھ مانگ نہ لوں۔ علی اعجاز نے شعر سنایا:۔؎
سارا ہی شہر تھا جس کے جنازے میں شریک
تنہائیوں کے خوف سے یہ شخص مر گیا
علی اعجاز نے دکھ بھرے انداز میں کہا۔ میری خریدی ہوئی گاڑیاں بیوی اور بیٹے استعمال کرتے ہیں مگر میں رکشوں میں دھکے کھاتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اللہ، اس طرح کابڑھاپا کسی کو نہ دکھائے، آخر میں اس نے کہا ’’ ان اللہ مع الصابرین‘‘ اللہ کی نصرت ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو استقامت اور ثابت قدمی سے کام لیتے ہیں اور ہر مشکل کا مقابلہ جم کر کرتے ہیں اور مسلسل ایسا کرتے رہتے ھیں۔ آخری ایام میں اسے دل کا دورہ پڑا۔ چار دن ہسپتال میں رہا لیکن جانبر نہ ہو سکا۔ وہ اپنے اندر بہت پہلے مر چکا تھا۔ یہ ایک جسم تھا جو دنیاداری نبھا رہا تھا لیکن اس جسم کے ساتھ کسی نے دنیاداری نہ نبھائی۔ سورہ الحشر کی آیت 2 ہے
’’فاعتبرویا اولی الابصار‘‘ آنکھوں والو،عبرت حاصل کرو۔