اپوزیشن جماعتوں نے جب پی ڈی ایم کی بنیاد رکھی تھی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ماضی بعید کے ایک دوسرے کے خلاف انتہائی جارحانہ رویے اور ماضی قریب میں بغض مشرف میں دونوں کے سیاسی اتحاد کے بارے میں سیاسی بصیرت رکھنے والوں نے اس وقت ہی کہا تھا کہ
اے چشم یار تو بھی تو کچھ دل کا حال کھول
مجھ کو تو یہ دیار نہ بستا دکھائی دے
کیونکہ پی ڈی ایم کی ’’خشت اول‘‘ سے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا اپنا ایجنڈا تھا جو وہ مولانا فضل الرحمن کے کندھے کا سہارا لے کر پورا کرنا چاہتے تھے۔اگرچہ دو بڑی جماعتیں (پی پی اور (ن) لیگ) ایک، دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب کو حکومت مخالفت میں چھپائے اور دبائے بیٹھی تھیں کیونکہ دونوں کا مفاد اور ایجنڈا بالکل الگ الگ تھا جس کا اظہار پی ڈی ایم کے مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں گوجرانوالہ میں ہونے والے پہلے جلسے میں نواز شریف ، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے خطابات سے نہ صرف عیاں ہوا تھا بلکہ پی ڈی ایم کی ’’طبعی عمر‘‘ اورمستقبل کی راہیں بھی متعین کر دی تھیں۔ ’’اوٹھ دا ویر‘‘ تو ویسے ہی ضرب المثل ہے تو پھر کیا ’’مردحر‘‘ آصف علی زرداری زبان کاٹنے اور پس دیوار زنداں گزارے ’’بے گناہی‘‘ کے 10 سال تو بھول چکے ہونگے؟ اسی طرح شہباز شریف کی طرف سے ’’بھاٹی چوک میں گھیسٹے جانے‘‘ اور ’’لوٹی ہوئی ملکی دولت پیٹ پھاڑ کر نکالنے‘‘ کے بلند بانگ اور خالی خولی دعوئوں کو بھی کوئی بھولا نہیںہو گا۔ کراچی سنٹرل جیل کے باہر بلاول کو انگلی پکڑائے کھڑی بے نظر بھٹو کی تصویر آج بھی جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تو جیالے دل تھام کے بیٹھ جاتے ہیں اور کلیجہ پکڑ کے رہ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ’’پی ڈی ایم ‘‘ کے پلیٹ فارم سے ’’مشترکہ سیاسی جدوجہد‘‘ کس طرح قابل اعتبار و پُراعتماد اور کامیاب ہو سکتی ہے۔ پھر گوجرانوالہ کے جلسے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والے جلسے میں نواز شریف کا خطاب نہ کرانا بھی محض ’’اتفاقیہ‘‘ تو نہیںتھا۔ پیپلز پارٹی نے ’’پی ڈی ایم‘‘ کے پلیٹ فارم پر اپنے جن اہداف کا تعین رکھا تھا وہ بلاول کی ’’ظاہری‘‘ اورزرداری کی ’’باطنی‘‘ قیادت میںتقریباً حاصل کر لیے گئے ہیں۔ قبل ازیںبھی کئی اہم مقاصد تو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کے موقع پر ہی حاصل کر لیے گئے تھے جن میں اہم ترین بھٹو کی پھانسی کو نواز شریف کی طرف سے عدالتی قتل قرار دینا تھا۔ یہ بھی میثاق جمہوریت کے ’’طفیل‘‘ ہوا کہ نواز شریف نے ضیاء الحق کے مارشل لاء کوبھی غیر قانونی قرار دیا ، جہاںکبھی مسلم لیگ کے جلسوں میں نواز شریف کے خطاب کے دوران ’’مرد مومن مرد حق ، ضیاء الحق ضیاء الحق‘‘ کے نعرے لگتے تھے اور ’’ضیاء الحق کی عمر بھی نواز شریف کو لگ جائے‘‘ کی ’’دعا‘‘ کو فخریہ بیان کیا جاتا تھا وہیں نواز شریف نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کر کے نہ صرف ’’سیاسی خطائوں‘‘ پر ’’سجدہ سہو‘‘ کیا بلکہ ماضی کے ’’سیاسی گناہوں‘‘ کا کفارہ بھی ادا کر دیا۔ پھر جب مطلب نکل گیا تو ’’سب پہ بھاری‘‘ ایک زرداری نے ’’ایسے معاہدے کون صحیفے ہوتے ہیں‘‘ کہہ کر ’’میثاق جمہوریت‘‘ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاتھا۔
نواز شریف پھر اسی سوراخ سے دوسری بار ڈسے گئے۔ ’’پی ڈی ڈیم‘‘ کا وجود دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تشکیل پایا تھا۔ باقی سب تانگہ پارٹیاں‘‘ اور ’’شوقیہ فنکار‘‘ تھیں۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے تو ان کی اہمیت ان کے اپنے سیاسی قدکاٹھ کی وجہ سے ہے۔ اسی وجہ سے تو حکومتی عہدیداروں ، وزیروں ، مشیروں کو موقع مل گیا تھا اور انہوں نے روزاول سے ’’پی ڈی ایم‘‘ کو ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔ رہے، مولانا فضل الرحمن۔ تو ان کو پی ڈی ایم کی صدارت تفویض کیے جانے کے پس پردہ (پی پی اور ن لیگ کے) مقاصد تھے ، دونوں پارٹیاں کبھی بھی مولانا فضل الرحمن کوقائد ایوان نہیں بنانا چاہتیں اور نہ ہی بطور اپوزیشن لیڈر ان کی پذیرائی پی پی اور (ن) لیگی قیادتوںکو گوارا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی اس ’’محبت‘‘ کا عملی مظاہرہ سینٹ الیکشن کے موقع پر یوسف رضاگیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ملنے والے ووٹوںکے فرق سے دیکھ چکے ہیں۔ تاہم نواز شریف ، مریم اور مولانا فضل الرحمن پہلے دن سے ہی جارحانہ کھیل کے حق میں تھے جبکہ باقی ساری (ن) لیگ (بشمول شہباز شریف) اور پیپلز پارٹی کبھی بھی استعفے دینے کے حق میںنہیں تھی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اگر سندھ حکومت کوکھونانہیں چاہتی تھی تو (ن) لیگ کے پاس بھی اپوزیشن کی ساری مراعات ہیں ، شہباز شریف قومی اسمبلی جبکہ حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں ، ایک (ن) لیگی ایم این اے قومی اسمبلی میں چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہے تو دوسرا (ن) لیگی ایم این اے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا چیئرمین ہے۔ گویا ’’گلشن والے اپنا حصہ پورا لے رہے ہیں‘‘ ’’کانٹے تقسیم کیے ہیں تو پھولوںکو بھی تقسیم کیا ہے۔‘‘ اب ایسی صورت میںتو پی ڈی ایم کا جو حشر ہو رہا ہے وہ تو پہلے ہی نوشتہ دیوار تھا۔ اس لیے اب سارے مقاصد پورے ہونے اور اہداف حاصل کرنے کے بعد پی ڈی ایم کی ’’کشتی‘‘ سے پیپلزپارٹی کا چھلانگ لگانا فطری ہے کیونکہ …؎
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر ، تم اپنی محبت واپس لے لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
٭…٭…٭