23مارچ پوری قوم سے حساب مانگ رہا ہے 1940ء لاہور کے منٹو پارک (موجودہ یادگار پاکستان/گریٹر پارک)میںجو قرارداد پیش کی گئی تھی کیا اس کا حق ادا ہوگیا ہے تحریک آزادی میں لاتعداد انسانی جانوں کی قربانی پیش کی گئی، مسلمانوں نے اس قرارداد کو اپنے لہو سے سینچا اور لازوال داستان رقم کی ۔ تحریک آزادی دنیا کے چند انقلابوں میں سے ایک انقلاب ہے جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، سرسید احمد خان، علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان، ممتاز دولتانہ اور دیگر رہنمائوں نے یہ سوچا کہ ہندوستان کو تقسیم ہونا چاہیے اور مسلمانوں کو جن جن ریاستوں میں اکثریت ہے وہاں ان کو ایک کرکے ایک الگ وطن کا مطالبہ کرنا چاہیے، برصغیر کے تمام مسلمانوں نے ان رہنمائوں کی آواز پر ایک ہو کر لبیک کہا اور جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ اس تحریک کے پیچھے آ کھڑے ہوئے اس قرارداد میں چودھری رحمت علی نے اس وطن کا نام پاکستان تجویز کیا جو اکثریت سے منظور کرلیا گیا اس کے بعد تعمیر پاکستان کی جدوجہد میں تیزی آ گئی، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے متحرک ساتھیوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دبائو ڈالنا شروع کردیا اور بالآخر 1940ء کی سخت جدوجہد آزادی 1947ء میں رنگ لائی اور پاکستان وجود میں آ گیا۔ تقریباً دس سالوں کی شدید جدوجہد نے پاکستان کو بنا دیا مگر 23 مارچ کے وہ تقاضے جو ہمارے رہنمائوں نے ہم سے کئے تھے یا وہ نظریہ جس دو قومی نظریہ کا نام دیا گیا تھا وہ الگ الگ دو ملکوں کو بنا گیا لیکن وہ مقاصد پورے ہوئے۔ یہ ایک سوال ہے جو ہر محب وطن پاکستان کے ذہن میں گونج رہا ہے آج پاکستان کو قائم ہوئے تقریباً 72 سال ہو چکے اور اس دوران بہت سی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آئیں جن میں سب سے زیادہ کام منتخب وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئے بلکہ وہ کام ہوئے جن کی اسلامی دنیا میں نظیر نہیں ملتی ، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور تمام اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا جس طرح 1940ء میں بانی پاکستان نے تمام رہنمائوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جس کی بدولت پاکستان قائم ہوا اس طرح مسلم دنیا کو پوری دنیا میں منوانے کیلئے بھٹو نے لاہور میں اکٹھا کیا اور مسلم دنیا کو پہلے اپنی اہمیت کا احساس دلایا اور پھر اس کو منوانے کے طریقے بتائے میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کے اغراض و مقاصد اپنی نئی نسل میں پہچانا چاہتی ہوں۔ 23 مارچ 1940ء اور چودہ اگست 1947ء پاکستان کی تاریخ کے وہ روشن باب ہیں جن کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا چاہتے ہم 23 مارچ تحریک آزادی کی جدوجہد کو نہیں بھولتا اور اپنے لیڈروں کی محنت کو ضائع نہیں کرناچاہیے،تقاضوں سے میری مراد صرف یہ نہیں کہ آپ اس دن لیڈروں کی یاد منائے یا ان کو خراج تحسین پیش کرے بلکہ ان کے نقش قدم پر چلئے ان کے زریں اصولوں کو اپنائے اور اپنے وطن پاکستان سے اس طرح محبت پیدا کرے جس طرح اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اس آئین کی پاسداری کرے ، قانون کا احترام کرے اور اپنے وطن سے غداری کی سوچ کا خاتمہ کرے یہ ہی 23مارچ 1940ء کی قرارداد کے تقاضے ہیں کہ پاکستان کو دشمنوں سے بچانا ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیے ، ہمیں آئین کو مضبوط کرنا ہے اور دو قومی نظریہ کی اولین ترجیح تھی ہمارا فرض ہے اپنے بچوں کو قرارداد مقاصد سے آگاہ کریں اور تحریک آزادی کی جدوجہد کے بارے میں بتائے تاکہ پاکستان مضبوط ہوا جب یہ وطن محفوظ اور مضبوط ہوگا تو ہم سب محفوظ ہوںگے ورنہ دشمن 72ء سال بعد بھی ہمیں معاف نہیں کر رہا اور اپنی دشمنی سے باز نہیں آ رہا، آئے دن سرحدوں پر دہشت گردی اس کا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان اس کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، آج کے حالات 1940ء کے حالات سے مختلف نہیں ہیں اس لئے ہماری جدوجہد آج بھی جاری اور ساری رکھنی ہے۔
23مارچ کے تقاضے
Mar 24, 2021