دونوں جماعتیں مشرق و مغرب کا ملاپ ہیں جو صرف وقتی طور پر ایک ساتھ ہوئی ہیں تاکہ عمران خان کی حکومت کو نیچا دکھایا جا سکے وگرنہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سیاست میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اپوزیشن جماعتیں اس وقت صرف تنقید برائے تنقید کی عملی تصویر بن چکی ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی وژن ہے اور نہ ہی کوئی ایسا منصوبہ جس کو پیش کر کے وہ حکومت کی رہنمائی کر سکیں اور مشکل معاشی حالات میں ملک کی خدمت کرنے کی بجائے یہ اپوزیشن جماعتیں اس وقت صرف اپنی بوٹی کے چکر میں پوری مرغی کو ذبح کر کے ہڑپ کرنا چاہتے ہیں تا کہ ان کی کرپشن اورمفادات کی سیاست کا باب ہمیشہ کیلئے جاری رہ سکے۔ چونکہ شروع دن سے ان سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ وقتی اتحاد ہے جو جماعتیں آج پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے یک جان دو قالب بنی ہوئی ہیں جلد یا بدیر ہی یہ ایک دوسرے کے دست و گریبان پر ہاتھ ڈالتی دکھائی دیں گی۔یہ الفاظ میرے گزشتہ کالم کے تھے جوچودہ مارچ کو نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا اورمیرے کالم شائع ہونے کے دو دن بعد پی ڈی ایم کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا اور اجلاس میں جیسا میں نے کہا تھا ویسا ہی ہوا پی ڈی ایم کا اتحاد آخر کار پارہ پارہ ہو گیا اور آصف علی زرداری سب پر بھاری ثابت ہوئے انہوں نے ن لیگ کی نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی رَٹ کو ان پر ہی الٹ دیا اور استعفوں کی سیاست کو نوازشریف کی واپسی سے مشروط کر دیا۔ آصف علی زرداری سیاست کے بڑے کایاں کھلاڑی ہیں انہیں معلوم ہے کہ نہ نوازشریف نے ان کے کہنے پر واپس آنا ہے اور نہ ہی انہوں نے استعفے دینے ہیں اس لئے انہوں نے پہلے سینیٹ الیکشن کا انتظار کیا یوسف رضا گیلانی کو مسلم لیگ ن کے ووٹوں سے سینیٹر منتخب کرایا اور اس کے بعد جب دیکھا کہ ان کا امیدوار چیئرمین سینیٹ نہیں منتخب ہو سکا تو انہوں نے مزید انتظار کرنے کی بجائے مارچ سے پہلے پی ڈی ایم سے اپنی راہیں جدا کرنا ضروری گرادنا کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ اپنی لڑائی میں ان کا کندھا استعمال کر رہی ہے ۔سندھ حکومت کی صورت میں پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کے پاس ایک مضبوط قلعہ موجود ہے اور آصف علی زرداری درست سمجھتے ہیں کہ ن لیگ چاہتی ہے کہ انہیں اس قلعے سے نکال کر دربدر کرایا جائے۔پی ڈی ایم میں اگرچہ دس جماعتیں موجود ہیں مولانا فضل الرحمن کہہ چکے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی مارچ کریں گے اور پی ڈی ایم کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن بقول وزیراعظم عمران خان اتحاد وہی کامیاب ہوتے ہیں تحریکیں وہی چلتی ہیں جن کے پیچھے کوئی مقاصد ہوتے ہیں ،جو قوموں کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتی ہوں ایسی تحریکیں نہیںپنپ سکتی جن تحریکوں کا مقصد ہی کرپشن کو بچانا اور مال کو سمیٹنا اور ذاتی مفادات کی ترجیح ہو ان تحریکوں کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اب پی ڈی ایم کا ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کے غبارے میں جو پی ڈی ایم کی صورت میں ہوا بھری گئی تھی وہ نکل چکی ہے ابھی تو آصف علی زرداری نے ن لیگ کو آئینہ دکھایا ہے تو اپنے کالم کی وساطت سے قارئین کو باور کراتا چلوں کہ وہ دن دور نہیں کہ مریم نواز دوبارہ زرداری چور کے نعرے لگا رہی ہوں گی اور بلاول بھٹو زرداری نوازشریف کو غداری کے سرٹیفکیٹ دے رہے ہوں گے اور ن لیگی متوالے اور پیپلز پارٹی کے جیالے جو کچھ دن قبل تک مل کر شیرینی بانٹ رہے تھے جلد ہی وہ ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں گے اور ٹی وی ٹاک شوز میں دونوں جماعتوں کے ترجمان ایک دوسرے پر گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ چلا رہے ہوں گے۔رہے مولانا فضل الرحمن وہ اس بار اسمبلی میں نہ ہونے کا غصہ نکال رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی صورت ان سب کو بھی ایوان سے نکال کر اپنے برابر لا کھڑا کریں تا کہ باقی جماعتیں بھی ان کے ہم پلہ ہو جائیں جو اس وقت درجنوں ممبران کی صورت میں ایوان میں موجود ہیں۔ ستمبر 2020 میں بننے والا یہ اتحاد اب باقاعدہ طور پر کچھ دنوں کا مہمان ہے یا یوں کہہ لیں کہ وینٹی لیٹر پر ہے اور آخری سانسیں گن رہا ہے ۔کالم کے آخر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امن کی پیشکش کا ذکر کرنا ضروری ہے جو انہوں نے بھارت کو کی ہے۔ فروری کے مہینے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر بھی معاہدہ ہو چکا ہے جس میں دونوں جانب سے تاحال سیز فائر ہے ، اب ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے مکمل امن کی پیشکش کی ہے ۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے مستحکم پاکستان بھارت تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیا کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہے۔ پاکستان باوقار اور پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تمام دیرینہ تنازعات حل کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاہم یہ انتخاب ارادے اور فہم و فراست پر مبنی ہے اور یہ کسی دبائو کا نتیجہ نہیں۔ نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اب وہ وقت ہے جب روابط، پرامن بقائے باہمی اور وسائل کی تقسیم کے ذریعے جنوبی ایشیا میں ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے تاکہ ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے بھوک، ناخواندگی اور امراض کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اگر باجوہ صاحب کی اس پیشکش کا مثبت جواب دیتا ہے تو یقینا یہ خطہ یورپ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے لیکن مودی جیسے انتہا پسند وزیراعظم کے ہوتے ہوئے بھارت سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔