اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان/ محمد ریاض اختر) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ آئین پاکستان کے دیباچہ اور کئی آرٹیکلز میں لکھا ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے منافی ہو، مائنس عمران بیانیہ بیرون ملک کی پیداور ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے ون مین ون ووٹ ہوتا ہے، اربوں روپے زرمبادلہ بھجنے والے اوورسیز کو تاریخ میں پہلی بار ووٹنگ کے عمل میں شامل کیا جا رہا ہے۔ منحرف ارکان ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر آئین توڑنے یعنی فلور کراسنگ کرنے کی بات کر رہے ہیں، آئین توڑنے کی بات کا حوصلہ بہت بڑی بات ہے۔ ایسا تو آمریت میں بھی نہیں ہوا ضیاء الحق نے آئین غیر مئوثر کیا تھا۔ اور پرویز مشرف نے معطل، ضمیر فروشی سب سے بڑا کینسر ہے۔ پارلیمان میں جس کی سزاء تاحیات نااہلی ہے۔ حکومت نے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کر کے حکم امتناعی نہیں بلکہ آرٹیکل62 کے تحت چار سوالات کی تشریح مانگی ہے۔ حکم امتناعی نہ لینے کا مطلب ہے کہ حکومت فیصلے کے حوالے سے پر اعتماد ہے۔ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر لارجر بنچ کی تشکیل چیف جسٹس آف پاکستان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت سے گفتگو میں کیا۔ انہوں نے نوائے وقت کی 82 ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ اپوزشن کی عدم اعتماد کے معاملے میں ہمارے پاس تین چار ٹرمپ کارڈز موجود ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چودھری نثار سے بھی ملاقات کی ہے، عمران خان کوئی غلط بات نہیں کرتے ان کے ایمان پر انگلی اٹھائی جاتی ہے جبکہ انہوں نے پوری دنیا میں اسلام کا نام بلند کیا ہے۔ اپوزیشن ناجائز کمائی سے پارلیمنٹرین کو خریدنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ نیب کو ختم کردیا جائے اور الیکشن شفاف نہ ہوں، اپوزشن کی سیاست سے خود ان کے لوگ تنگ ہیں۔ ایسے لیڈر آگئے ہیں جو ضمیرفروشی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ حکومت صدراتی آرڈیننس کے اجراء کی فیکٹری ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں 73آرڈیننس آئے ہیں جن کو قانون بنایا گیا ہے۔ 1973ء کے آئین کی منظوری سے آج تک مجموعی طور 1083آرڈیننس جاری ہوئے ہیں۔ اب تک117 ایکٹ بنے ہیں جن میں ہماری حکومت نے 5ایسے ایکٹ بنائے جو خواتین ، بچوں، بزرگوں سے متعلق ہیںپاکستان کا پہلا آئین بنانے والوں نے سب سے زیادہ آرڈیننس اور ترامیم کیں اور مارشل لاء کو تحفظ دیا۔آرٹیکل 62 اور 62-1f پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان میں ممبر پارلیمنٹ کی نااہلی کی معیاد مقر ر نہیں جبکہ دیگر آرٹیکلز میں 3 سے 5 سال سزا ہو سکتی ہے۔ 62-1f میں تاحیات نااہلی بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں نااہلی کے ضمن میں آئین میں لکھا ہے کہ اگر نااہلی کا ڈیکلریشن کورٹ کے توسط سے آئے تو نااہلی کی مدت تین سے پانچ سال ہوگی اور اگر پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کی طرف سے نااہلی کا ڈیکلریشن آئے تو اسکا مطلب نااہلی تاحیات ہوگی اور اس میں عدالتی نظیر پیش کی جیسا کہ جہانگرترین اور نواز شریف نااہلی کیس میں صادق اور امین نا قرار دیتے ہوئے نااہلی تاحیات ہوئی ہے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ ان کے والد انتہائی نیک، ملنسار اور دین دار آدمی تھے۔ والدین کی دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں وہ صحافت، پی ٹی وی اور ریڈیو سے بھی منسلک رہے ۔
مائنس عمران بیانیہ بیرون ملک کی پیدوار : بابر اعوان
Mar 24, 2022