او آئی سی کا قیام 21اگست 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں اس وقت ہوا جب ایک عیسائی نے 800سال سے مسجد اقصٰی میں رکھے صلاح الدین ایوبی کے منبر کو آگ لگادی تھی۔ اسلامی دنیا نے اس واقعے پر اپنے غیر معمولی ردعمل کے طور پر یہ تنظیم قائم کی اور اس کا پہلا نام موتمر عالم اسلامی رکھا گیا جسے 20جون 2011ء کو قازقستان میں ہونیوالے تنظیم کے 28ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں تبدیل کرکے اسلامی تعاون تنظیم رکھ دیا گیا۔ او آئی سی کا تاریخ میں سب سے اہم دوسرا اجلاس ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں منعقدکرایا۔ اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے تمام ممالک کی نمائندگی تھی اس میں شاہ فیصل‘کرنل قذافی‘ یاسر عرفات سمیت اہم سربراہان شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم اور امتیازی سلوک کے خلاف یک زبان ہوکر جدوجہد کرنے کا عزم کیا گیا۔
او آئی سی کے قیام کے وقت اس کے رکن ممالک کی تعداد 24تھی جس میں اب اضافہ ہوکر رکن ممالک کی تعداد 54ہوچکی ہے۔ ان اسلامی ممالک کا تعلق دنیا بھر کے مختلف براعظموں سے ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کا مرکزی دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے اور 2014ء سے اسکے دسویں سیکریٹری جنرل سعودی عرب کے ایاد بن یامین مدنی ہیں۔ اقوام متحدہ کا قیام 1943ء میں اس وقت ہوا تھا جب دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی حملے کردیئے تھے۔ اقوام متحدہ کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کے سیاسی معاملات حل کرکے دنیا میں امن قائم رکھنا تھا۔اسی طرح او آئی سی کے قیام کا مقصد دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونیوالی زیادتوں پر موثر آواز بلند کرنا تھا۔ او آئی سی اس وقت غیر موثر نظر آئی جب ایران عراق طویل جنگ جاری تھی لیکن مسلم ممالک اس جنگ کو روکنے میں ناکام نظر آئے۔ اسی طرح او آئی سی عراق کویت جنگ کو روکنے میں بھی غیر موثر نظر آئی۔او آئی سی فلسطین‘ کشمیر‘ شام‘ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا سمیت دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی موثر دادرسی نہیں کرپائی اسی لئے ایک وقت تھا کہ جب او آئی سی کو امریکہ کی بی ٹیم کے طور پر مخاطب کیا جاتا تھا۔
یورپی ممالک نے دفاعی مقاصد کے لئے نیٹو قائم کی جس میں ترکی بھی شامل ہے۔ نیٹو ممالک کے باہمی اتحاد میں یہ بات طے ہے کہ اگر کسی بھی نیٹو ملک پر حملہ ہوگا تو اسے تمام یورپ پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح سارک ممالک کی تنظیم جنوبی ایشیاء کے ممالک کی باہمی تنظیم ہے جو خطے میں قیام امن و ترقی کے لئے قائم کی گئی تھی لیکن اسے بھارت کی ہٹ دھرمی نے غیر موثر بناکر رکھ دیا ہے۔
اب پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہواہے اور یوم پاکستان 23مارچ کی نیشنل پریڈ اس بار تاریخی اہمیت حاصل کرگئی ہے کیونکہ 23مارچ کی پریڈ کے موقع پر پاکستان کی مسلح افواج کے دستوں کی شاندار کارکردگی اور دفاعی آلات کی نمائش کے موقع پر دنیائے اسلام کے تمام وزراء خارجہ موجود تھے ‘اس سے قبل 45واں اجلاس بھی افغانستان کے معاملے پر اسلام آباد میں ہی منعقد ہوا۔ اسلامی تعاون تنظیم میں ایک بار پھر جان پڑ گئی ہے کیونکہ اس اجلاس کے پاکستان میں انعقاد کو روکنے کیلئے امریکہ نے کوششیں کیں تاکہ اس وقت عالمی صورتحال اور روس یوکرائن جنگ کے موقع پر پاکستان اہم عالمی کردار ادا نہ کرسکے۔ واضح رہے کہ او آئی سی کے اس اہم اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ بطور مبصر مدعو تھے۔ جس سے سی پیک سے متعلق اسلامی دنیا کو اعتماد میں لیکر اس منصوبے کی توسیع اور مزید کارآمد بنانے کے متعلق مشاورت کی گئی۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی بدترین شکست‘ روس کے یوکرین پر حملے اور امریکہ و نیٹو کو دھمکیاں‘ راہداری سی پیک اور گوادر پورٹ کی تعمیرسے خطے میں تجارت و ترقی میں پاکستان کے کردار میں زبردست اضافے سمیت موجودہ ورلڈ آرڈر و معاشی ترجیحات میں تبدیلیوں کے اسلامی ممالک پر اثرات اور ان سے نبردآزما ہونے کے لئے مشاورت و مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل’ مسئلہ کشمیر و افغانستان اور فلسطین کی صورتحال سمیت اسلامی ممالک اور چین کے درمیان تعاون میں اضافے سمیت موجودہ دور کے اہم ترین ایشوز پر مشاورت کے باعث اس وقت دنیا کی نظریں او آئی سی اجلاس پر مرکوز ہیں۔ موجودہ صورتحال میں او آئی سی کے مسلسل دوسرے اجلاس کے پاکستان میں انعقاد کے بعد سے ایک بار پھر او آئی سی کو دنیا میں اہمیت ملنا شروع ہوگئی ہے اور یہ تنظیم ایک بار پھر اسلامی ممالک کی موثر تنظیم کے طور پر فعال ہوچکی ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ امیر اسلامی ممالک اپنی دولت و سرمایہ ترقی پذیرو فعال اسلامی ممالک میں لگاتے اس سرمایہ کاری سے مسلم دنیا ہی مضبوط ہوتی آج افغانستان‘ عراق‘ شام‘ کشمیر‘ فلسطین سمیت درجنوں ممالک میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ضروری ہے کہ اسلامی سربراہان مملکت او آئی سی اجلاس کو صرف مشترکہ اعلامیہ کے اجراء تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس پلیٹ فارم پر یہ تہیہ کریں کہ ہم اب مسلمان ممالک کو معاشی ترقی‘ دفاعی مضبوطی کی فراہمی کے لئے اپنے تمام تر وسائل کا بے لوث طریقے سے بھرپور استعمال کریں گے اور امریکہ و یورپ میں سرمایہ کاری کو مرحلہ وار ختم کرکے اپنی تمام تر سرمایہ کاری مسلم ممالک میں کریں گے تاکہ مسلم ممالک معاشی طور پر مضبوط ہوں اور دفاعی تعاون کیلئے بھی نیٹو کی طرح یہ طے کریں کہ او آئی سی کے کسی بھی رکن ملک پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کا حامل ناقابل تسخیر ملک ہے۔ اسی لئے اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم کے تمام ممالک کو چاہئے کہ اب ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے کشمیر پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کے وقار میں اضافے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا شروع کردیں۔ او آئی سی کے 46ویں اجلاس کے بعد امید ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم میں کمی آئے گی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ توہین رسالتﷺ کو عالمی بدترین جرم قرار دیا جاسکے گا۔