بد زبان سیاست کی ابتداء

خدا نہ کرے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے صرف اس وجہ سے تحریک انصاف کے وہ اراکین جن پر حکومتی اراکین کا الزام ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپیہ رشوت لیا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے اور یقینا اس کی وجہ سے اگر تحریک کامیاب ہوئی تو سارہ ملبہ ان اراکین پر جائے گا جو تحریک انصاف سے تائب ہوکر حزب اختلاف سے جا ملے ہیں۔ خدانخواستہ اس لئے لکھا ہے کہ بقول وزیر اعظم ان اراکین کے بچوں کے رشتے نہیں آئیں گے ، ان کے بچوں کو سکولوں میں شرمسار ہونا پڑے گا۔ بڑا بھیانک منظر ہوگا ، یہ پہلی دفعہ ہونے جارہا ہے کیونکہ جب یہ اراکین جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کو تحریک انصاف کی حکومت بنانے آئے تھے اسوقت نہ ہی انکے بچوںکو سکول میں تنگ و شرمسار کیاگیا جب بھی یہ اور بے شمار دوسرے اراکین پکڑ دھکڑ کرکے لائے گئے تھے اور نہ ہی انکی اولادوں کو رشتہ ہونے کا مسئلہ درپیش ہوا ۔ایک عجیب بے وقوفیوں کا ماحول ہے ،نئے نئے فلسفے سننے کو مل رہے ہیں وزیر اطلاعات فرماتے ہیں کہ اراکین کو لاکھوںکے مجمع سے گزر کا جانا ہوگا ، اور واپس بھی وہیں سے گزرنا ہوگا ۔چونکہ تحریک عدم اعتماد خفیہ رائے دہی نہیں ہے ، اسمبلی کے باہر بے ہنگم جلوس کے درمیان سے گزرنا پڑے گا انکی رائے اس بے ہنگم مجمع کو معلوم ہوچکی ہوگی تو وجہ یہ ہے کہ وہ بے ہنگم ہجوم انہیں زد وکوب کرے گا وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کا خیال کسی ’’بنانا‘‘ نظام میں تو ممکن ہے مگر ہماری جمہوری روایات ابھی اتنی خطرناک نہیں ہوئیں ابھی عدالتی سسٹم زندہ ہے۔ معاشی مصیبت سے دوچار ملک میں سیاست دانوں نے دونوںجانب سے عوام کو ذیابیطس و بلڈپریشر کا مزید مریض بنانے کا تہیہ کررکھا ہے بقول مقبول وزیر اعظم کے ’ سکون تو قبر میں ہی آتا ہے ‘ ،تماشہ یہ ہے ناراض اراکین جو آج بھی کہتے ہیںکہ ہم نے تحریک انصاف نہیں چھوڑی بلکہ اپنے علاقے کے لوگوں کے نہ حل ہونے والے مسائل پر یہ قدم اٹھایا ہے ، ہماری بات کو وزیر اعظم نے گزشتہ تین سال سے زائد عرصے سے سنی ان سنی کیا ہے۔ان چند ماہ میں پاکستان کے عوام الناس ، خاص طور پر اپنے لیڈروں کے پیار و محبت میںدیوانگی کے حامل چند افراد کے علاوہ اکثریت کا مایوسی ہی ہے ، اور تماشہ بنے ہوئے ہیںدنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں، خصوصاً مغربی ممالک میں جن کا تذکرہ ہمارا حکمران طبقہ تواتر سے کرتا ہے، حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں کسی بڑی سیاسی لڑائی کے بغیر منتخب ایوانوں میں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے ٹھوس دلائل پر مبنی بحث مباحثے کے بعد خوش اسلوبی سے نمٹا دی جاتی ہیں۔  عدم اعتماد کا ڈرامہ پاکستان میں پہلے بھی ہوا ہے جس میں بعض حکومتوں کی تبدیلی کیلئے اس آئینی طریق کار کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے بغیر آزمایا گیا اور ہار جیت کو آئین کے تقاضوں کے تحت قبول کر لیا گیا مگر اس مرتبہ تحریک انصاف کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی جو تحریک پیش کی گئی اس کے نتیجے میں تمام آئینی روایات پامال ہوتے دکھائی دے رہی ہیں اور معاملہ پارلیمنٹ سے زیادہ سڑکوں اور عدالتوں میں چلے جانے کی نوبت آ گئی ہے۔ اب تو وقت گزر چکا ہے مگر اگر حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے کام لیا ہوتا تو حالات اس نہج پر نہ پہنچتے ، سیاست دانوں کو اقتدار کی ہوس کے بجائے ملک کی فکر کرنی چاہیے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے ہوئے عوام بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش سے تنگ آ چکے ہیں، ان کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ میں نے اپنے کالمزمیںکئی مرتبہ لکھنے کی جسارت کی ہے کہ مضبوط حکومتیں خریدے ہوئے یا مانگے تانگے یا ایڈجیسٹ کئے جانے والے الیکٹ ایبلز سے نہیںبنتیں، کوئی بھی سیاسی جماعت ہو جب تک واضح نظریہ کی حامل نہیںہوگی اس کے اراکین اسکی اپنی جماعت کے نہیںہونگے یہ میوزیکل چیئر کا کھیل چلتا رہے گا۔ چند دنوں میں سیاست میںجو زبان متعارف کرادی گئی ہے اس سے جان اللہ جانے کب چھوٹے گی، نہ مٹنے والی بدگمانیوںکی وجہ سے امید کی کوئی کرن نہیںنظر نہیں آتی ، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے عوام جانتے ہیں کہ ایک سیاست مشترکہ حزب اختلاف اور حکومت کے مابین ہے ، دوسری سیاست مشترکہ حزب اختلاف کے اندر بھی ہے جو مصنوعی مسکراہٹوں کے تبادلے کررہے ہیں اور وقت پڑنے پر ایک دوسرے پر اقتدار کا دائولگائینگے ۔ عوام سیاست دانوں سے اپنا دل دور کربیٹھے ہیں اب صرف خاندانی، سیاست یا سڑک پر ہنگامہ ہی ہوگا ۔ آئی ایم ایف کا کیاکرنا ہے کسی کو نہیں پتہ ۔

ای پیپر دی نیشن