’’میں اور منٹو‘‘

Mar 24, 2022

میرے والد گرامی تحریک پاکستان کے راہنما اور ادبی اور سماجی اور سیاسی پس منظر رکھنے والی شخصیت چودھری برکت علی تھے چودھری برکت علی قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی، تہذیبی اور ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہردم کوشاں رہے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے ادبی فروغ کے لیے ماہنامہ ادب لطیف 1935ء میں جاری کیا اور ان کی نصابی اور ادبی کتب کی اشاعت کے لیے والد چودھری برکت علی 1929ء میں ’’پنجاب بکڈپو‘‘ قائم کر چکے تھے۔ منٹو سے میری شناسائی اور جان پہچان اس وقت ہوئی جب میں سکول میں پڑھتا تھا۔ ایک دن ایک پتلا دبلا خوبصورت شخص تانگے سے اتر کر دکان میں داخل ہو گیا۔ وہ شخص مجھے دیکھ کر والد صاحب سے کہنے لگا چودھری یہ کون ہے لگتا ہے تمہارا بیٹا ہے والد صاحب نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور مجھے اپنے قریب بلا کر کہا خالد بیٹا! ان سے ملو یہ سعادت حسن منٹو ہیں اردو کے بڑے ادیب، افسانہ نگار۔ اس کے بعد تو منٹو صاحب سے عموماً پنجاب بک ڈپو پر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ادب لطیف کا دفتر پنجاب بک ڈپو کے ملحق ہی تھا منٹو صاحب کے افسانے ماہنامہ ادب لطیف میں بڑے تواتر کے ساتھ چھپتے تھے۔منٹو صاحب اپنا افسانہ ادب لطیف میں دینے کے لیے آتے تو والد محترم چودھری برکت علی سے کہتے یار چودھری میں یہ افسانہ میرزا ادیب کو دے کر آتا ہوں۔ میرزا ادیب اس وقت ماہنامہ ادب لطیف کے ایڈیٹر تھے۔ افسانے دے کر واپس آتے تو کچھ وقت کے لیے والد صاحب کے پاس دکان پر رکتے۔  جب ادب لطیف کے دفتر میں چچا میرزا ادیب اور والد محترم دکان پر موجود نہ ہوتے اور منٹو آ جاتے تو مجھ سے بہت سی باتیں کرتے۔ اگست 19 میں والد محترم چودھری برکت علی فوت ہو گئے مگر منٹو کی محبت اسی طرح برقرار رہی وہ ادب لطیف کے دفتر آتے تو مجھ سے اسی طرح پیار اور خلوص سے ملتے۔ میں اگر سکول سے لیٹ ہو جاتا تو منٹو صاحب میرا انتظار کرتے اور چچا میرزا ادیب سے کہتے آج چھوٹا چودھری ابھی تک سکول سے نہیں آیا۔ مجھے یاد ہے جب والد صاحب فوت ہو گئے تو ایک دن والد صاحب کو یاد کر کے منٹو صاحب مجھ سے کہنے لگے بیٹا خالد جب پورے پاکستان کے تمام ناشرین میری کتابیں اور افسانے چھاپنے سے ڈرتے تھے تو ا س وقت آپ کے والد صاحب نے بڑی جرأت اور بہادری سے کام لے کر میری کتابیں اور افسانے چھاپے تھے اسی زمانے میں انہوں نے میری کتاب ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ شائع کی تھی۔والد صاحب کے کچھ ہی عرصے بعد منٹو صاحب کی وفات ہو گئی اور ان کی یادیں اور محبتیں میرے دل و دماغ میں محفوظ رہ گئیں۔ 
( محمد خالد چودھری بابائے اردو بازار لاہور) 

مزیدخبریں