ہمارا علمی زوال اوراکادمی ادبیات پاکستان 


شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا: چناں قحط سالی دراندر دمشق /کہ یاراں فراموش کردند عشق( دمشق میں قحط کاایسا سال آیاکہ یارلوگ عشق کرنا بھول گئے)۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ حالات کے جبر نے ایک عام آدمی کی زندگی اتنی مشکل بنادی ہے کہ وہ اپنی ساری توانائیاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ہی صرف کردیتا ہے۔ان حالات میں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کوئی سہانا خواب کیا دیکھ سکے گا۔معروف شاعرپیرزادہ قاسم کا شعر ہے:
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمارکروں 
جوسوچتابھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں
مردہ معاشروں کی ترجیحات میں علم ہوتا ہے نہ ادب وثقافت کا فروغ ۔ہماری درس گاہیں جن کو درگاہیں ہونا چاہیے تھا، مادیت پرست قسم کے ”رٹو طوطے “پیدا کررہی ہیں۔ملکی اقتدار کی ریلے ریس میں اسٹکس اب ان ہاتھوں میں آگئی ہیں جن کے لیے روحانیت کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ہمارے بچپن کا زمانہ قدرے مختلف تھا،ایک عام آدمی آنکھوں میںمستقبل کے خواب سجائے اپنی اولاد کو علم ودانش کے زیور سے آراستہ کرنے کی خواہش میں دن رات محنت کرتا تھا۔کتاب کلچر اتنا توانا تونہیں تھا لیکن ریلوے اسٹیشنوں ،بیکریوں ، جنرل سٹوروں اور دوسری جگہوں پردیگر اشیا کے ساتھ ساتھ رسائل وجرائد اور کتابیں بھی شیلف میں رکھی دکھائی دیتی تھی۔لاری اڈوں اور بڑے بڑے چوکوں میں اخبار بیچنے والے ہاکرزکی آوازیں گونجتی تھیں، نوجوان ایک دوسرے سے استفسارکرتے تھے ۔کیاتم نے فلاں ادیب کی نئی آنے والی کتاب پڑھ لی ہے؟ کیا تم نے اخبار میں آج فلاں کا کالم پڑھا ہے؟۔یہ سادہ زمانہ تھا، قومی تشخص کی حفاظت کی ہرکسی کو فکررہتی تھی۔مہمان خانے اورچوپال آباد تھے۔ بزرگوں سے مجالست اعزاز سمجھی جاتی تھی،لیکن کیاکریں جب زوال آتا ہے تو اس کا وائرس زندگی کے ہرشعبے میں خاموشی سے سرایت کرکے اسے ہیروشیما اور ناگاساکی بنا دیتا ہے۔ہمارے ہاں کتاب کی اشاعت کا سفررکا تونہیں لیکن قارئین کی تعداد میں خوفناک حدتک کمی واقع ہوئی ہے۔ جامعات میں لائبریریوں کی حالت توشاید قدرے بہتر ہولیکن کالجزمیں کتب خانے ویران ہیں،ان کا واقعی کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے اکثر کالجز کے کتب خانوں میں لائبریرین ہی نہیں۔ سکولوں کی حالت توانتہائی مخدوش ہے۔نئی نسل کی تربیت کے لیے ہم نے علم وحلم کے جو غرقد اورزقوم لگائے تھے انھوں نے اب کڑوے کسیلے پھل دینے شروع کردئیے ہیں۔
 چندسال پہلے پنجاب کی ایک تاریخی درس گاہ میں (جہاں آٹھ ہزار کے قرین طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں ) کے ہزاروں کتابوں پر مشتمل کتب خانے کاسروے کیا گیاتو معلوم ہواکہ ایک دن میں اوسطاََ پانچ کتابوں کااجرا ہوتاہے۔اس صورت حال کودیکھ کر نوحہ گری کرنے کوجی چاہتاہے۔ ہمیںعالمی سودخوروں سے قرض لے کر سیاست کے انڈر پاس اور نفرت کے اوور ہیڈبرج بنانے سے فرصت ملتی تو قوم کی حقیقی ترقی کی طرف بھی راغب ہوتے ۔ہم نے اپنی متروک نسلوں کوآخر دیاہی کیاہے جو آج ان سے بہترردعمل کی توقع کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں مہنگائی کی حالیہ لہر میں ہرخاص وعام یہ سوچنے پرمجبورہوگیاہے کہ وہ کہاں تھا اورکہاں پہنچا دیاگیاہے۔دیگر اشیاکی قیمتوںکے ساتھ ساتھ کاغذکی قیمت تین گنا بڑھ گئی ہے ۔علم وادب کے فروغ کے سرکاری ادارے جیسے انجمن ترقی اردو،مجلس ترقی ادب،اردوسائنس بورڈ،نیشنل بک فاﺅنڈیشن ،قومی کونسل برائے فروغ زبان ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، ادارہ ثقافت اسلامیہ اور اکادمی ادبیات پاکستان وغیرہ کسی نہ کسی طرح علم کی اس شمع کو جلائے جانے کے جتن کرتے رہتے ہیں لیکن ان اداروں کے لیے مختص کردہ فنڈزنہ ہونے کے برابر ہیں،یہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ ان کی سرگرمیوں کے مثبت اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے۔ان اداروں میںتقرریاں سیاسی بنیادوں پرہوتی ہیں۔ہم نے اپنی گنہگار آنکھوں سے ایک اہم شاعر کو( جو ایک ادبی اکادمی کے سربراہ تھے) اپنے سعادت مند ہاتھوں سے ٹشوپیپر کے ساتھ مشروبات کی بوتلیں صاف صاف کرکے اراکین اسمبلی کوپیش کرتے دیکھاہے۔ایسے شب ِ حالات میں ایک عام آدمی تک علم وادب کے سورج کی کرنیں کیسے پہنچ سکتی ہیں۔اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی تھی لیکن اس ادارے میں ہمیں گزشتہ تین سالوں میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کا موقع ملا۔ تھوڑے تصرف کے ساتھ غالب کے شعر کا ایک مصرع پیش خدمت ہے: 
ہم سخن فہم ہیں”یوسف “کے طرفدار نہیں
 اس ادارے کے سربراہ میریٹوریس پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے واقعی اپنی عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے اکادمی کو اصل معنوں میں ایک عوامی ادارہ بنانے کی بھرپورکوشش کی ۔اس ادارے میں انھیں محمدعاصم بٹ،اختررضاسلیمی ،علی یاسر(مرحوم) جیسے جنیوئن لوگوں کی ٹیم میسرآئی ۔ ڈاکٹر یوسف خشک اکادمی ادبیات کی سربراہی سے پہلے شاہ لطیف بھٹائی یونیورسٹی خیرپور میں پرووائس چانسلر تھے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا سربراہ بنتے ہی انھوں نے اپنی ٹیم کی مدد سے انقلابی اقدامات کیے۔کرونا جیسی مہلک وبا کے دنوں میںاکادمی ادبیات پاکستان واحدسرکاری ادبی ادارہ تھا جس نے آن لائن تقریبات کا باقاعدہ شیڈول جاری کیا جس کے تحت انٹرنیٹ کے ذریعے متعدد بین الاقوامی سطح کے پروگرام منعقد ہوئے ۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے دنیاکے مختلف ملکوں امریکہ،برطانیہ ، جرمنی،برازیل،کینیڈا،سعودی عرب ،چین اور مصر وغیرہ کے ادبی فن پاروں کے اردو میں تراجم کرواکے سستے داموں عام قاری تک پہنچائے ہیں۔اس سے پہلے اس شعبے میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔آپ غور کیجیے ہمارا مشرق وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب سے ساتھ کتنا گہرااورمضبوط رشتہ ہے۔لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی وہاں مقیم ہیں۔ اس برادر اسلامی ملک سے ہمارا سماجی رشتہ صرف اسے مزدور فراہم کرنے اوروہاں سے ریال کما کر بھیجنے تک محدود ہے،سعودی عرب کی کہانیوں کا ترجمہ اس برادر ملک سے ایک علمی رابطے کا آغاز ہے،یہ تازہ ہواکے ایک جھونکے کی طرح ہے۔اس طرح کی کاوشوں کی قدر کی جانی چاہیے۔


 
 

ای پیپر دی نیشن