جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے اثاثے ظاہر


تحریر۔ عمران الحق۔ لاہور 

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے اپنے، اہلیہ اور بچوں کے اثا ثے ظاہر کرنا اچھی بات ہے اور قوم اس عمل کو سراہتی بھی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام معززجج صاحبان، جرنلز، سیاست دان، بیوروکریٹس بھی اپنے اور اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کریں۔عہدے اور اختیارات قوم کی امانت ہیں، جب تک با اثر افراد خود کو کسی قانون کا پابند نہیں بنائیں گے اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔قومی خزانہ لوٹنے والوں کا محاسبہ کرنا ہو گا۔ انسٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ آف اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق بی اے کی ڈگری رکھنے والے، سول سرونٹ پرائیوٹ سیکٹر کے مقابلے میں ساڑھے 9 فیصد زیاہ تنخواہ وصول کررہے ہیں۔یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ بیوروکریسی خفیہ طورپربہت زیادہ مالی فوائد حاصل کررہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔درحقیقت اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہو تا ہے کہ سرکاری ملازمین کو گھر، ملازمین اور الاؤنس تنخواہ کا حصہ شمار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ گریڈ 20 کے ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ 660 روپے ہے تاہم اس میں مختلف الاؤنسز، گاڑی، میڈ یکل اور گھر کی سہولت شامل کر لی جائیں تو ماہانہ آمدن 7 لاکھ 30 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح گریڈ 21 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ 12 ہزار کے قریب ہے جو سہولتیں شامل کرنے کے بعد 9 لاکھ 80 ہزار ماہانہ بنتی ہے جبکہ گریڈ 22 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ 23 ہزار 500 کے قریب ہے جو دوسری سہولتیں ملانے کے بعد 11 لاکھ روپے بن جاتی ہے۔سرکاری افسران ہر سال تمام سہولتوں کے باوجود تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں جبکہ سرکاری افسروں کو مختلف سہولتوں پرماہانہ 2 ارب 30 کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ سرکاری افسران کو سیلری سلپ میں شامل ملنے والے میڈیکل الاؤنس کے علاوہ ہر ماہ انہیں مجموعی طور پر دو اعشاریہ تین ارب روپے میڈیکل اخراجات کے ضمن میں بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے زیر استعمال رہائش گاہوں کی کل قیمت تقریباً ساڑھے 14کھرب روپے کے مساوی ہے۔ وزیر اعظم کی کفایت شعاری کی مہم اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب مراعات کے نام پر شاہانہ اخراجات کا سلسلہ بند ہو گا۔ ملک و قوم اس وقت شدید قسم کے بحرانوں کی زد میں ہیں، عوام بدحال اور ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔
یہ تو ہوگی ایک بات، اب ذرا دوسری جانب بھی دیکھیں، ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے پٹرول کی قیمت میں 114روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 139روپے فی لیٹر سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت میں ریکارڈ کمی ہو چکی ہے۔پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں واضح کمی ہورہی ہے جبکہ پاکستان میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے کم آمدن والوں کے لئے پٹرول پرسبسڈی دینے کے اعلان خوش آئند ہے، اس حوالے سے محض اعلانات ہی نہیں بلکہ عملا اقدامات بھی نظر آنے چاہیئں۔حکمرانوں نے عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسانے کی قسم کھا رکھی ہے۔پٹرولیم کی قیمتوں میں فی الفور کمی کی جائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔معاشی ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو گی۔جس کی وجہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ہیں۔غریب عوام کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ رمضان المبارک سے قبل پھلوں، سبریوں اوراشیا خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب عوام کے لئے جینا محال ہو چکا ہے۔رمضان بازاروں کے نام پر ناقص اشیا ئ￿  کی فروخت کی جا رہی ہے۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہو چکی ہے۔ ساری دنیا میں مذہبی تہواروں پر حکومتیں اپنے عوام کو سہولیتں دیتی ہیں مگر پاکستان میں بے لگام مافیا دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کو لوٹنا شروع کر دیتا ہے۔ ملکی حالات دن بدن سنگین ہوتے چلے جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم نے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کے سپرد کر دیا ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے بصورت دیگر حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔پاکستان کی معیشت کومضبوط اور عوام کو درپیش مسائل فوری حل کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ سیاسی چپلقش سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا، ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جن سے حقیقی معنوں میں عوام کو جان لیوا مہنگائی سے نجات حاصل ہو سکے۔ناکام طرز حکومت، اہلیت و صلاحیت کا فقدان،معاشی ایجنڈے میں عدم ترجیحات اور حکمرانوں کی دنگ ٹپاؤ پالیسیوں نے عوام کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ملکی ترقی کے لئے افہام و تفہیم کے ساتھ اندورنی انتشار کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ملکی حالات دن بدن سنگین ہوتے چلے جا رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن