پاکستان کو علاقائی تجارتی معیشتوں سے استفادہ کی ضرورت ہے:کاشف یونس 


لاہور(کامرس رپورٹر )وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ پاکستان کو پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے مجموعی تعلقات کو بہتر بنانے اور علاقائی تجارتی معیشتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز سٹریٹجک تھنک ٹینک گولڈ رِنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام ’’مارکیٹس کے تنوع‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسرے درجے کی متعدد برآمدی منڈیوں میں جگہ بنانیکی ضرورت ہے۔ ان میں آسٹریلیا، کینیڈا، انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ، ویتنام اور ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں کے دبائو کی واحد وجہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے جیو پولیٹکس سے لے کر معیشت قومی زندگی کے ہر شعبے میں ہم آسان نظام کا انتخاب کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کو اپنی افرادی قوت برآمد کرنے کی پالیسی پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہائی پیچیدہ نئی پالیسی اور اس کا سخت ترین نفاذ بھی مختصر مدت میں بہتر نتائج نہیں دے سکتا بلکہ اس کے فوائد طویل مدتی ہوں گے۔ کسی بھی سٹریٹجک ضرورت کیلئے درست پالیسی کی تیاری مشکل اور اس پر عمل درآمد کرنا اس سے بھی مشکل ہے۔ برسوں اور دہائیوں بعد زمینی حقائق ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہم نے جو آسان طریقہ اختیار کیا تھا وہ درست نہیں تھا لیکن اب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پاکستان تقریباً 200 ممالک کو برآمدات کر سکتا ہے۔ 
پاکستان کو ان تمام منڈیوں تک رسائی کیلئے انتہائی جامع جیو پولیٹیکل پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور ظاہر ہیکہ اسے ان منڈیوں کا خصوصی سفارتی خیال رکھنا ہو گا جہاں سے کل برآمدات کا ایک فیصد حصہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک ایشیا کے حقیقی برآمدی پوٹینشل سے فائدہ نہیں اٹھایا اور یہ وہ خطہ ہے جو اب عالمی معیشت کے گروتھ انجن کے طور پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہماری سالانہ برآمدات 2.781 بلین ڈالر ہے اور اس کے علاوہ صرف تین ایشیائی ممالک برآمدی مقامات کی اس فہرست میں شامل ہیں جہاں سے ہم نصف بلین ڈالر کماتے ہیں۔ مالی سال 2022 میں متحدہ عرب امارات کو ہماری مجموعی طور برآمدات 1.843 بلین ڈالر (کل کا 5.9 فیصد)، بنگلہ دیش کو 871 ملین ڈالر (کل کا 2.8 فیصد) اور افغانستان کو 552 ملین ڈالر (کل کا 1.8 فیصد) تھیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، چین اور برطانیہ سے ہماری برآمدی آمدنی مال اور خدمات کی کل برآمدات کا ایک تہائی سے زیادہ ہے جبکہ کل برآمدات کی دو تہائی تجارت صرف 11 ممالک کے ساتھ ہے۔

ای پیپر دی نیشن