بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
جن معاشروں میں ریاستی اداروں کی توقیر و عظمت نہیں ہوتی. وہاں انصاف کا بول بالا نہیں ہوتا . بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے. پاکستان معرض وجود میں تو اس مقصد کی تکمیل کے لیے آیا تھا. کہ یہاں آئینی اداروں کی مضبوطی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے گا. مگر اپنے قیام کے پچہتر سال بعد بھی اس خواب کو حقیقت کا روپ نہیں دیا جا سکا. کیونکہ ہمارے حکمران ان اداروں کی مضبوطی کے بلند و بانگ دعوے تو کرتے نظر آتے ہیں . مگر حقیقت میں وہ ان کی مضبوطی کو برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں. وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد و مفادات کے حصول کے لیے ان کو استعمال کرنا چاہتے ہیں. جب کبھی وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل میں ناکام ہو جاتے ہیں. تو پھر ان ریاستی اداروں کی تذلیل میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے. وہ ان اداروں کے سربراہان کو غدار تک کے لقب سے نواز دیتے ہیں. ان سیاسی رہنماؤں کے منفی رویوں کی سزا عام عوام کو بھگتنی پڑتی ہے. انہی منفی رویوں کی وجہ سے ملک میں تین بار طویل ترین مارشل لائ کا نفاذ کیا گیا۔ مگر ہماری سیاسی قیادت اپنیمنفی رویوں میں تبدیلی رونما کرنے کو ہرگز تیار نہیں. موجودہ دور میں بھی ریاستی اداروں کی تذلیل کرنے میں ہماری سیاسی قیادت پیش پیش ہے. مسلح افواج اور عدلیہ ان کے نشانے پر ہے. مسلح افواج نے تو اپنے کردار کی بحالی کی خاطر مکمل طور پر غیر سیاسی ہونے کا اعلان کیا ہے. گزشتہ چند ماہ سے اس کا عملی ثبوت بھی دیکھنے کو مل رہا ہے. ملک میں بے چینی کی کیفیت میں مسلح افواج نے کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی. مگر عدلیہ کے رویہ سے لگ رہا ہے. کہ وہ اس خلا کو پر کرنا چاہتی ہے. جو افواج پاکستان کے غیر سیاسی ہونے سے پیدا ہوئی ہے. آجکل عدلیہ کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں. حکومت وقت شکوہ کرتی نظر آتی ہے. کہ عدلیہ کا جھکاؤ مکمل طور پر یک طرفہ ہے. وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی دیگر پارٹی قیادت کو مکمل تحفظ دینے میں مصروف عمل ہے. جس کی وجہ سے دیگر ریاستی ادارے عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں. پولیس جس کا کام ملکی قوانین کو عملی جامہ پہنا ہوتا ہے. وہ اپنے اس مقصد کی تکمیل میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے. گزشتہ چند دنوں سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاھور میں پنجاب پولیس پر پرتشدد حملے کیے جا رہے ہیں. جن کے نتیجہ میں پولیس کے جوان زخمی بھی ہو رہے ہیں. اور ان کی سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے. یہ صورت حال کسی بھی صورت میں ملکی مفاد میں نہیں. اگر پولیس نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنا بند کر دیا. تو پھر ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہو جائے گا. عدلیہ خود جاکر ملزمان کو گرفتار کیا کرے گی. زمان پارک علاقہ غیر کا منظر پیش کر رہا ہے. جہاں پاکستانی قوانین کی عمل داری نہیں. زمان پارک کے رہائشی اس صورت حال سے مکمل طور پر خوف زدہ ہیں. ماضی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا تھا. کہ ملک بھر میں غیر قانونی طور پر رکھی گء رکاوٹوں کو فی الفور ختم کیا جائے. جس پر عمل درآمد کرواتے ہوئے. سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن لاھور سے بھی عارضی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا تھا. مگر اب کی بار ایسا نہیں ہو رہا. زمان پارک کا علاقہ گزشتہ چند ماہ سے مکمل طور پر عارضی رکاوٹیں رکھ کر عام عوام کے لیے بند کیا ہوا ہے. اب عدالتی احکامات کدھر ہیں. کیا یہاں عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ہو رہی. اگر عدلیہ کا دوہرا معیار یوں ہی چلتا رہا. تو عوام کا اعتماد اس سے اٹھ جائے گا. جو پہلے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں. ججوں کی آڈیوز لیکس نے تو اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے. کبھی ٹرک عدالت عظمیٰ کے باہر کھڑا کرنے کی بات ہوتی ہے. سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیکس نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے. وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر و چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز شریف کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں. سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے حالیہ انٹرویو نے بھی ملکی سیاست میں ہلچل برپا کر دی ہے. انہوں نے کھل کر بتایا ہے. جنرل فیض حمید کس طرح سے پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرتے تھے. اور انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ و سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے رفقائ کار کے خلاف کیا کیا انتقامی کارروائیاں کی. ان سب ناجائز اقدامات کا مقصد کسی نہ کسی طرح سے عمران خان کو سیاسی فائدہ پہنچانا مقصود تھا. اور ایسا ہی ہوا. مگر اس لاڈلے کو سہولت کاری کی اس قدر عادت پڑ گئی ہے. کہ وہ اب ہر کام میں ان کی مدد کا متلاشی ہے. وہ ملکی عدالتوں کو بھی مذاق سمجھتا ہے. وہ ان کے بار بار بلانے پر بھی پیش نہیں ہوتا. ایسا لگتا ہے. کہ جرم عمران خان نہیں. بلکہ عدلیہ کر رہی ہے. جو اس کے انتظار میں ساری ساری رات بیٹھی رہتی ہے. عدلیہ ایسی ایسی روایات قائم کر رہی ہے. جس کی مثال ماضی میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی. عمران خان عدالت کے بلانے پر حاضر نہیں ہوتا. اگر غلطی سے وہ آ بھی جائے. تو عدالت اس کی حاضری گاڑی میں ہی لگواتی ہے. عدلیہ سے ایک معصومانہ سا سوال ہے. کہ پھر پولیس اور عوام کو آپس میں کیوں لڑواتی ہے. عدالت ہی زمان پارک میں لگا لینی چاہیے. مطلب جج خود عمران خان کی رہائش گاہ چلے جایا کرے. یا پھر عدلیہ یہ حکم دے دیں. کہ عمران خان جو چاہے کرے. کوئی ریاستی ادارہ اس سے باز پرس نہیں کر سکتا. اسے ہماری طرف سے کھولی چھٹی ہے. حکومت وقت بھی اپنی رٹ قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے. لاھور شہر کو دہشت گردوں سے نجات دلوانے کے لیے فی الفور فوجی آپریشن کی ضرورت ہے. جس طرح کا آپریشن سابق آرمی جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں لال مسجد میں کیا تھا. وہ غلط تھا یا درست یہ الگ بحث ہے. مگر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کا علاج درست کیا گیا تھا. آج پھر سے ملک اس قسم کے اقدام کا متلاشی ہے. ایم کیو ایم کے سرابرہ کے خلاف بھی فوجی آپریشن اس لیے کیا گیا تھا. کہ وہ ملکی اداروں کی رٹ کو چیلنج کرتا تھا. اس کو تو ملک بدر کر دیا گیا. آج ایک شخص کھلم کھلا پنجاب کے صوبائی دارالحکومت پر قابض ہے. مگر کوئی پوچھنے والا نہیں عوام کی نظریں اب مسلح افواج پر ہیں. کیونکہ حکومت وقت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے. پولیس کا مورال بھی مکمل جواب دے گیا ہے کیونکہ اس کی پشت پر ریاست نہیں. حکومت محض تماشائی بنی ہوئی ہے. اگر کوئی مسلح جتھے لیکر ملک پر قابض ہے. تو اس کی سرکوبی کرنا حکومت کا کام ہے. مگر شاید حکومت بھی اس سے خوف زدہ ہے. اب تو آخری امید مسلح افواج ہی ہے. سیاسی غیر جانبداری ایک طرف رکھتے ہوئے. جب تک ریاستی اداروں کی توقیر و عظمت قائم نہیں ہوگی. عوام مسلسل عدم تحفظ کا شکار رہے گی. حکومت اور پولیس تو مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے. اب افواج پاکستان کو ہی کچھ کرنا ہوگا. ورنہ جو کام تحریک طالبان پاکستان سوات میں کرنا چاہتی تھی. وہ لاہور میں ہو گا۔
یہ اور بات ہے کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں
مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے