پہلا دو روزہ ادبی ثقافتی فیسٹیول 2023 کی روداد!! 

Mar 24, 2023

عامر شہزاد صدیقی


داسی پدماوتی جب رقص کرتی تھی تو ایک روایت کے مطابق دیوتا رقص دیکھنے آیا کرتے تھے اس رقص سے اس کے جسم سے شاعری پھوٹتی تھی. ایسے ہی عہد موجود میں میرے ملتان،میرے وسیب کے ادیب شاعر دانشور جب الفاظ کو ب±نتے ہیں تو ان کی مہک سے بجائے خود خوشبو رقص کرتی دکھائی دیتی ہے. شہر اولیاءکی ادبی فضاءگزشتہ دنوں شاعری، تاریخ آشنائی ، مزاح، موسیقی، سماع سے مہکتی رہی ملتان آرٹس کونسل اور ملتان ٹی ہاو¿س آڈیٹوریم میں جنوبی پنجاب ادبی ثقافتی فیسٹیول 2023 کی پہلی باردو روزہ تقریبات نے شہر کا ماحول داسی پدماوتی کے رقص کی طرح تھرکا دیا یقیناً یہ تاریخی لمحات تھے ۔
ڈاکٹر اسد اریب کا تاریخی جائزہ، ،ڈاکٹر پروفیسر اسلم انصاری ،پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی،ڈاکٹر مختار ظفر ،شکیل پتافی کے ملتان کے مختلف موضوعات پہ بے لاگ مقالہ جات، عزیز شاہد، نسیم شاہد ،جہانگیر مخلص، عامر سہیل، مخمور قلندری، نوازش ندیم، حاتم بلوچ، امان اللہ راشد کی شاعرانہ ردھم،معروف لوک گلوکار ظہور لوہار کے سروں کا جادو، عالمی شہرت یافتہ قوال گھرانے کے چشم چراغ عابد مہر علی کی قوالی، مزاح نگار گل نوخیز اختر کے مختلف معاشرتی پہلوو¿ں پہ چٹکلے، کامیڈین رمضان شہزاد،کوثر بھٹی،رازی بھٹہ کے بکھیرے قہقہوں سے چہرے کھلکھلا اٹھے. یہ دو روزہ تقریبات ایک ایسی مہربان شخصیت کے وژن کا "عکس لطیف" تھا جو میرے مشاہدے میں تاریخ، تہذیب، آرٹ، ادب سے عقیدت کی حد تک لگاو¿ رکھتے ہیں میری مراد ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب جناب ثاقب ظفر صاحب سے ہے جنہوں نے اپنے بہالپور میں بطور کمشنر تعیناتی کے نہ صرف شہر کے قدیمی دروازے ان کے ناموں کی نسبت سے مکمل ریسرچ کے بعد تعمیر کرائے بلکہ ریاست کے زمانے میں اس وقت کی پرنٹنگ پریس اور نواب صاحب کے استعمال کی نایاب گاڑی کو پبلک کے لیے نمایاں مقام پر ایستادہ کیا. جناب ثاقب ظفر سے نیاز مندی کاایک سلسلہ ہے. حال ہی میں میری تاریخ ملتان پہ32 تحقیقاتی مقالہ جات پر مبنی ایک کتاب نادراتِ ملتان شائع ہوئی ہے جس میں جناب اے سی ایس صاحب کا فلیپ مضمون بھی شامل ہے، اس سلسلے میںان سے ایک تقریب" بازیافت ملتان کانفرنس"کے انعقاد پر بات ہوئی تھی. اس دوران لاہور اور بہاولپور کے لٹریری فیسٹیول کے ازکار زد زبان آنے سے فیسٹیول مذکورہ پر بات چل نکلی آپ یقین کریں کہ 2 مارچ کو پہلی بار یہ بات ہوئی اور 3 مارچ سے جناب فاروق ڈوگر ایڈیشنل سیکریٹری ایڈمن کی قیادت میں باقاعدہ کام کی شروعات ہو چکی تھی راقم نے ایک مشاورتی کمیٹی کی تجویز دی جس میں شاکر حسین شاکر، سجاد جہانیہ ،نسیم شاہد،اظہر مجوکہ،سلیم قیصر کے نام شامل تھے اور یوں مشاورتوں کا سلسلہ چل نکلا. ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ فیسٹیول کے باقی معاملات آنے پر یوں خوشی ہوئی کہ یہاں ایسے معاملات کے پہلے سے ہی تجربہ کار شخصیت ملک عطاءالحق ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ،جناب طارق اعوان؛ ایڈیشنل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن موجود تھے جبکہ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن الطاف بلوچ صاحب نے بھی اس پراجیکٹ پہ محنت کی انتہا کر دی گو ان سے پہلی ملاقات تھی مگر آپ نے پروگرام کو سنوارنے میں سجانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا. یہاں مسلسل مشاورتوں میں شاکر اور راقم نمائندگی کرتے رہے. پہلے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اے سی ایس جناب ثاقب ظفر صاحب نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی کامیابیوں اور اس کے براہ راست عوام پہ اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ملتان کو ادبی ثقافتی زندہ تاریخ کا حامل شہر قرار دیا انہوں نے بتایا کہ اس رنگارنگ تقریب کا پہلا مشورہ مجھے عامر شہزاد صدیقی نے دیا اور یہ میرے دل کو لگا.اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے کہا کہ دوست عزیز عامر شہزاد صدیقی کی مرتبہ کتاب نادرات ملتان میں، میں نے ملتان کو "شہر طلسمات " لکھا ہے. بات کتاب کی چل نکلی تو عرض کرتا چلوں کہ گزشتہ دنوں ملتان کی تاریخ پر مرتبہ میری کتاب نادراتِ ملتان شائع ہوئی ہے جس میں بتیس سپوتان ملتان اور وسیب زادیوں کے تحقیقی مقالہ جات اور 6 منظوم گلہائے عقیدت شامل ہیں محترم ڈاکٹر اسلم انصاری صاحب،محترم پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب،پروفیسر ڈاکٹر مختار ظفر, پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد صاحب ،ڈاکٹر امین صاحب نے کتاب ہذا کو ریفرنس بک قرار دیا ہے یہ بھی واضع کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ تاریخی تحقیق کا مجموعہ کسی مقابلے میں مرتب نہیی کیا گیا، نا ہی اس کا نام کسی نے دان کیا ہے اس کا نام راقم کی ذاتی تحقیق ہے پہلی میٹنگ ہی میں یہ نام ڈیکلئیر کر دیا تھا لہذا دماغ میں گردش کرتے ابہام کلئیر کر لینے چاہیں. پہلے بھی نام کا "دھوکہ "کھا چکا ہوں. نادراتِ ملتان، بازیافت ملتان.. دونوں میرے تجویز کردہ نام ہیں اس کتاب کو بطور کمیونٹی ورک دوستوں کی محبت سے مکمل کیا ہے الحمد للہ.. واپس آتے ہیں اپنے مضمون کی طرف، دو روزہ ادبی ثقافتی میلہ میں ایک تقریب بازیافت ملتان کی بھی تھی جو تجاویز کے تجاوزات میں دب گئی کوئی بات نہی اب نہ سہی پھر سہی. بازیافت ملتان کا مجوزہ سیشن ڈاکٹر اسد اریب صاحب نے ادبی بیٹھک کا نام سے کیا.. فیسٹیول میں کچھ باتوں کی کمی رہ گئی جسمیں پہلا مسئلہ گیدرنگ کا ہے سول سوسائٹی ادباء شاعروں کی شرکت مناسب ایڈواٹائزسے حل ہو سکتا ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ میلے کے مشاعرے کے دوست محفل سماع میں نہیں آئے اور سماع کے لوگ ڈائیلاگ میں نہیں تھے.ہمارے ادبی سماج میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شاعر صرف اس پروگرام میں شرکت کرتا ہے جس میں اسے مشاعرہ پڑھنا ہو وگرنہ آنے کا تکلف نہی کرتے جبکہ شاکر، قمر رضا،سلیم قیصر ،مستحسن خیال جیسے شعراءبطور سامع موجود تھے. بہت سے دوست صرف اس لیے نہیں آئے کہ ان کا نام بینر میں نہیں ہے. ٹی ہاو¿س میں چار سیشن منعقد ہوئے گیدرنگ بہت اچھی تھی. اصغر ندیم سید ،ڈاکٹر انوار احمد کو لوگ خود سننے آئے. پاکستان کی ایک قومی لیڈر ماروی میمن کے جلسے میں لوگ جلسہ سننے کم اور دیکھنے زیادہ آتے تھے. گل نوخیز اختر ملتان کا سپوت ہے جو طنز مزاج سے اصلاح کرتا ہے وہ ملتان میں کھلا ایسا گ±ل ہے جو اپنی نو خیز یوں کے ساتھ دور کہیں اختروں میں رہتا ہے.. ان کے سیشن کو راقم کے ساتھ میم صائمہ علی نے کنڈکٹ کیا تو یہاں بھی لوگوں نے یہ سیشن سنا کم اور دیکھا زیادہ..دو روزہ فیسٹیول انمٹ نقوش چھوڑ کے اختتام کو پہنچا اے سی ایس جناب ثاقب ظفر صاحب نے فیسٹیول کے اختتام پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ بہار کے رنگوں کو ادب ثقافت تصوف ہنر مندی کے رنگوں میں ڈھال کر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ نے اہل ملتان کو پیش کیا ہے اب ہر سال اہل ملتان اس شاندار تقریب کا تقاضہ کیا کریں.اس میلہ کو سجانے میں جناب الطاف بلوچ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ، ملک عطا الحق، فاروق ڈوگر، طارق اعوان،شاکر حسین شاکر اور راقم الحروف ،سلیم قیصر کی کاوشیں شامل ہیں.ملتان کی فضاو¿ں میں وساخ میلہ سورہ میانی، دربار شاہ شمس میلہ، میلہ پیر چنن شاہ وغیرہ کبھی شان و آن سے سجا کرتے تھے ان کو بھی زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں