رمضان کریم کی بہاریں اور پاکستان


راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 

 ماہ صیام کا دوسرا عشرہ سائیہ فگن ہے۔ ہر طرف رحمتوں' برکتوں' نعمتوں، سیادتوں اورسعادتوںکا نزول ہے تاہم جو رونقیں مکہ شریف اورمدینہ منورہ میں ہیں اس کی مثال پوری کائنات میں تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ رمضان کریم کے پہلے عشرے میں پچاس لاکھ فرزندان توحید ورسالت نے عمرہ کی عدیم المثال سعادت پائی۔ اہل عشق کی مسلسل اور بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر سعودی حکومت کو زائرین کے لیے ''رمضان پالیسی'' بنانا پڑی۔وزارت حج کے ترجمان کے مطابق ماہ صیا م کے دوران صرف ایک بار عمرہ ادا کیا جاسکے گا ،یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ دوسرے زائرین کو موقع مل سکے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی علیحدہ اور منفرد شان ہے ،تاہم رمضان کریم میں کی رونقوں کا کوئی جواب نہیں۔ دونوں مقامات ہر وقت انوار وتجلیات کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دو مقامات پر رحمتوں کے ساتھ فرشتوں کا نزول بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ مسجد نبوی? اور حرم شریف میں صبح وشام آزاد کشمیر ' فلسطین اور پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کی دعائیں کی جارہی ہیں۔ اہل عقیدت کی دعاوں میں امت مسلمہ کی مضبوطی اور استحکام کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔
حجاج مقدس کی کشش پورے عالم اسلام میںسب سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر سے مسلمان مکہ مدینہ کی حاضری کو زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور سب سے بڑی خواہش سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے دل میں حاضری کی آرزو بچپن سے مچلتی ہے اور مکہ مدینہ آکر یہاں دفن ہونا سب کی آخری خواہش ہوتی ہے۔ اللہ کریم سب مسلمانوں کو بڑے دربار کی حاضری نصیب فرمائے اور سب کی مرادوں کو شرف قبولیت بخشے صبیح الدین رحمانی یاد آگئے
کعبے کی رونق کعبہ کا منظر ' اللہ اکبر اللہ اکبر
کعبے کے اوپر سے جاتے نہیں ہیں 
 کس کو ادب یہ سکھاتے نہیں ہیں
کتنے مودب ہیں یہ کبوتر اللہ اکبر ' اللہ اکبر 
 اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی رمضان کی نعمتوں کا صدقہ ہے 1947ء میں رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو اللہ کریم نے برصغیر کے مظلوم اور مجبور مسلمانوں کو آٰزاد وطن کا تحفہ دیا۔یادش بخیر… 23 مارچ 1940ءکو قرارداد لاہور کی منظوری کے روح پرور مناظر میں حضرت قائداعظم نے واضع کر دیا تھا کہ آزاد وطن مسلمانوں کے لیے ایسی تجربہ گار ہے جہاں سب کو برابری اور مساوات کے ترازو میں تولا جائے گا کوئی ادنی' اعلی اور حسب نسب کے اعزاز کا حامل نہیں ہوگا، ہم سب نے پاکستان کی ترقی' استحکام اور خوشحالی کے لیے سرگرم رہنا ہے
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
افسوس 77 برس گزر جانے اور بانی پاکستان کی جدائی کے بعد تعمیر وترقی اور خوشحالی کا یہ خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔ 20 مارچ 2024ءکو حکومتی اتحاد کی خوشی دیدنی تھی ،آئی ایم ایف نے سٹاف لیول معاہدے کی تیسری قسط جاری کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دئیے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض پروگرام کی تیسری قسط( ایک ارب 10 کروڑ ڈالر) ملے گی۔حیرت ہے کہ ہم مشروط قرضے کی وصولی پر شادیانے بجا رہے ہیں ،اسی قرضے کے بدلے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے وہ ملک جہاں 25 کروڑ افراد میں سے نصف تعداد کو دو قت کی روٹی میسر نہیں جہاں ایک کروڑ گریجویٹ روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں جہاں 3 کروڑ نوجوان اپنے مستقبل سے پریشان ہیں اور جہاں پونے تین کروڑ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں وہاں بجلی' گیس اور ضروریات زندگی کو مہنگا کر کے جو نتائج برآمد ہوں گی اس کا انداز آج غریب خاندانوں میں دیکھا جارہا ہے غربت اور مہنگائی غریبوں کو نگل رہی ہے، سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ چکا ہے۔ پاکستان اندرون اور بیرون ملک قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے ان قرضوں کی مجموعی مالیت 130 ارب ڈالر بتائی جارہی ، دوسری طرف فروری 2024 میں افراط زر مہنگائی کی شرح 23.1 فیصد تک پہنچی جو بلند ترین شرح تصور کی جارہی ہے۔صنعتوں کی نج کاری کامسئلہ جون کا توں ہے ریاست کی ملکیت 85 اداروں میں سے اکثر کئی سال سے خسارے کی بلند پرواز پر ہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ادارہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے جس کا سالانہ نقصان 170 ارب روپے ہیں۔ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں (10 ڈسکوز ) ہر برس قومی خزانے سے 450 ارب روپے کے اخراجات لئے ہوئے ہیں۔ پی آئی اے' پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے ادارے حکومت اور قوم پر بوجھ ہیں۔پنشن کا حجم قومی محصولات کے سر پر ہتھوڑا ہے۔ وفاقی سطح پر سول ملٹری پنشن 800 ارب روپے سے زائد ہے۔ صوبوں میں حجم 1000 ارب روپے ہے۔ گریڈ 17 سے اوپر کے افسران کی پنشن کا حجم نچلے عملے کی پنشن کا 5 سے 6 گنا ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ اور مفت پیٹرول اور بجلی آتی ہے۔ 220 ارب روپے مالیت کے ہزاروں لیٹر مفت پیٹرول والی 90 ہزار سے زائد لگژری گاڑیاں دفتری اوقات میں نہیں بلکہ 24 گھنٹے بیوروکریسی کے اختیار میں ہیں۔ سول اور عدالتی بیوروکریسی 550 ارب روپے کی مفت بجلی کے مزے لے رہی ہے۔
 افطار اور سحرکے دستر خوانوں پر اداس چہروں کو تعداد بڑھ رہی ہے تاہم اپنے ملک کو کہاں لے کر جارہے ہیں ؟یہ وہ پاکستان ہے جس کا خواب 23 مارچ میں دیکھا اور جس کی تعبیر 26 رمضان کو ملی۔
1974ء سے آئی ایم ایف پروگرام سے منسلک ہو کر قرضہ لینے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک طمطراق سے جاری ہے ہم قرضہ لئے جارہے ہیں اس کی واپسی کون کرے گا اور کس طرح ہوگی ؟اس بارے میں حکمران جماعت' پارلیمنٹ اور سیاست دان خاموش ہیں یہ بھی یاد رہے ہمارا قومی بجٹ پچاس ارب ڈالر پر مشتمل ہے جس میں سترہ ارب ڈالر اشرافیہ کی سہولتوں پر خرچ ہوتا ہے کیا ایسے غریب ملک کو قرضہ در قرضہ پالیسی سے چلایا جاسکتا ہے؟
اب آپ وزیراعظم کی باتیں سنیں! بجلی اور گیس کی مد میں 551 ارب کی سالانہ چوری ہورہی ہے حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے بجٹ نہیں۔آئی ایم ایف پروگرام سے تنخواہیں دینے کی سہولت ملتی ہے 670 ارب روپے کی ہر سال ٹیکس چوری کی شکایت ہے۔آپ خود سے سوال کریں کہ کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے جہاں صرف امیروں کو زندہ رہنے کا حق ہے غریب غریب تر ہورہا ہے اور جن کو وسائل میسر ہیں ان کی روز چاندی ہورہی ہے دینا بھر میں صرف بجٹ کے دوران ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں پورا سال بجلی' گیس' پٹرول اور دیگر اشیاءکی قیمتیں بڑھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے
خدا کے لیے ہوش کریں 25 کروڑ عوام کا احساس کریں لوگوں کی قوت خرید اور قوت برداشت جواب دیتی جارہی ہے انقلاب فرانس اور انقلاب ایران کی ان وجوہ کو مدنظر رکھیں جہاں غریب اور ناانصافی نے لوگوں کو حکمرانوں سے ٹکرانے کا موقع فراہم کیا۔ حکمران سنبھل جائیں غریبوں کے صبر کا مزید امتحان نہ لیں۔

ای پیپر دی نیشن