محکمہ صحت میں وزرا ءکی جوڑی

پاکستانی سیاست میں جوڑیاں کسی نہ کسی صورت میں رنگ جماتی رہی ہیں۔ بھٹو کزنز کے بعد چوہدی برادران شریف برادران اور خواجہ برادران اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے وزارتی جوڑیوں کا بھی اچھا شہرہ ہے۔ حالیہ انتخابات میں مخصوص صورت حال کے باعث خواجہ سعد رفیق کچھ مارجن سے اپنی پکی سیٹ بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تو یقینی تھا کہ اگر پنجاب میں مسلم لیگ ن حکومت بناتی ہے تو انہیں صحت کا قلم دان ملے گا۔ پہلے بھی وہ وزیر صحت رہے ہیں اور اس بار تو نئی صوبائی پار لیمانی قیادت یعنی مریم نواز شریف کے سامنے آنے کے بعد اور پنجاب میں تحریک انصاف کی صورت میں مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں ان دنوں چیلنجز بھی بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو کابینہ میں شامل کرنا اور صحت کا قلم دان ان کے حوالے ہونا ضروری تھا۔ ان کے ساتھ عمران نذیر بھی وزیر صحت بنائے گئے ہیں۔ دونوں نے پہلے بھی بالترتیب سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اور پرائمری اینڈ سیکنڈر ی ہیلتھ کیئر کے شعبے سنبھالے رکھے تھے اور محکمہ صحت میں کئی تبدیلیاں لائے تھے۔ اب نئے حالات میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے صحت تعلیم اور نوجوان ووٹرز کے لئے بہت سے منصوبے بنائے ہیں اور صحت کے شعبے کے لئے ایک بار پھر اسی تجربہ کار وزارتی جوڑی کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔دونوں کی صدارت میں ایڈوائزری کمیٹی اور تھنک ٹینک بنانے سے کاز کی سنجیدگی واضح ہے۔دونوں نے اب تک کچھ پریس کانفرنسیں بھی اکٹھی کی ہیں اوران میں تال میل سے لگتا ہے کہ اس بار صحت کے شعبے کونیا رنگ دینے کے لئے بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔صحت کارڈ ان دنوں زیادہ توجہ کا باعث ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر تحریک انصاف نے عوام کی ہمدری سمیٹی جب کہ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ عوامی خدمت کا یہ منصوبہ اول اول ان کا برین چائلڈ تھا۔ اب تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے کے بعد ترپ کے اس پتے کو دوبارہ فوری طورپر لانچ کیا تو پنجاب میں مریم نواز نے اس کو مزید بہترکر کے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیدحماد ر ضا،ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز،ترجمان محکمہ صحت پنجاب کے مطابق صحت کارڈ کے بہتر صورت میں عملی اجرا کے لئے ، صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق کی زیر صدارت پنجاب ہیلتھ انشی ایٹو مینجمنٹ کمپنی میں اہم اجلاس کے دوران صحت کارڈ کو مزید بہتر بنانے کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا جس میں وزیر صحت نے اعلان کیا کہ صحت کارڈ کو عوام کیلئے ہر صورت سودمند بنائیں گے اور مریم نواز کی قیادت میں یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام میں مزید بہتری لے کر آئیں گے۔گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران صرف صحت کے شعبے کے دونوں وزرا کے مشترکہ اجلاسوں کے تناظر میں مستقبل کے منصوبوں کی ایک جھلک بہت کچھ بتا رہی ہے۔ لاہور سے دور کے علاقوں میں دل کے مریضوں کی فوری مدد کے لئے صوبائی وزرائےصحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کی زیر صدارت پی ایم یو میں نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سرگودھا کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں بہت سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں ا۔خواجہ عمران نذیر نے اعلان کیا کہ سرگودھا کے عوام کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنایا جا رہا ہے۔ ایسا ہی ایک اور اجلاس صوبائی وزرائے صحت خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر کی زیر صدارت محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر میں منعقد ہوا جس میں سیکرٹری صحت پنجاب علی جان خان، سپیشل سیکرٹریز راجہ منصور احمد اور محمد اقبال،اے ایس پی شہربانو نقوی و دیگر افسران نے شرکت کی۔اس میں ٹرانسجینڈرز تحفظ درسگاہ کے حوالے سے فیصلے ہوئے۔ ایک دن بعد خواجہ سلمان رفیق اچانک پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچ گئے اور زیر تکمیل موڈیولر تھیٹرز کا دورہ کرکے پیش رفت کا جائزہ لیا۔اس موقع پر چیئرمین بورڈ آف مینجمنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرقد عالمگیر، سی ای او پی آئی سی پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال اور ایم ایس پی آئی سی ڈاکٹر سید محسن علی شاہ موجود تھے۔ ٹھیکیدار کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے موڈیولر تھیٹرز کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حکومت پنجاب تھیلیسیمیا کے بچوں کو انتقال خون کی سہولیات کیلئے ہر ڈویڑن میں سٹیٹ آف دی آرٹ تھیلیسیمیا سنٹرز قائم کرے گی اور بروقت علاج کیلئے تھیلیسیمیا پر کی گئی قانون سازی پر عملدرآمد کرایا جائیگا۔اسی طرح وزرا کی جوڑی نے یہ بھی اعلان کیا کہ وزیر اعلی کی پالیسی کے تحت لاہور میں جدید سہولیات سے آراستہ نوازشریف کینسر ہسپتال قائم کیا جائیگا ، تمام سرکاری ہسپتالوں اور بنیادی و دیہی مراکز صحت کی اپگریڈیشن ایک سال میں مکمل کرلی جائیگی۔۔محکمہ صحت میں وزرا کی جوڑی کو اس وقت سکرٹری صحت علی جان خان اور سپیشل سیکرٹری راجہ منصور احمد کی صورت میں بہترین انتظامی ٹیم ملی ہے۔علی جان خان نے کچھ عرصہ پہلے ٹرانسفر پوسٹنگ پالیسی میں کچھ اچھی تبدیلیاں کی تھیں جن میں اگلے گریڈ میں پروموشن پر سیٹ کی موجودگی کی صورت میں پہلے والی پوسٹنگ کی جگہ پر ہی سروس جاری رکھنے کی اجازت بھی شامل تھی۔ یہ اچھی ترمیم تھی اور اس سے ڈاکٹروں محکمہ اور عوام کو ایک ساتھ فائدہ ہوا۔ راجہ منصور احمد جن سے پنجاب بھر سے محکمہ صحت کے ملازمین کو براہ راست واسطہ رہتا ہے اپنے حسن تدبیر اور نظم و ضبط پر سختی سے عمل درامد کو یقینی بناتے ہوئے حالات کے مطابق فوری بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔محکمہ صحت میں ایسی ٹیم کی موجودگی میں وزیر اعلی مریم نواز شریف کی خواہش کے مطابق صحت کے وزرا کی جوڑی بہت اچھے فیصلے کر کے ان پر عمل درامد کروا کر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو مطمئن اور عوام سے داد حاصل کر سکتی ہے۔نئی حکومت کی سوچ محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ لاہور کے بعض ہسپتالوں میں تو رنگ بھی لانے لگی ہے اور پرنسپل امیرالدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر الفرید ظفر نے لاہور جنرل ہسپتال کا نظم و نسق احسن طریقہ سے چلانے ، ملازمین کی حاضری، کارکردگی کو مزید بہتر بنانے ، ہسپتال میں صفائی و ستھرائی اور مریضوں کو دی جانے والی سہولیات کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنانے کیلئے 5رکنی اعلیٰ سطحی ویجیلنس اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی کے سربراہ پروفیسر محمد شاہد ہونگے جبکہ دیگر ارکان میں ڈاکٹر جاوید ممتاز،ڈاکٹر محمد مقصود،ڈاکٹرلیلیٰ شفیق اورپرنسپل نرسنگ کالج شامل ہیں۔ ویجیلنس کمیٹی ہسپتال کے ملازمین کی حاضری روزانہ کی بنیاد پر چیک کرنے اور تمام شعبوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال ڈسپلن کی خلاف ورزی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے۔ مریضوں کا ریکارڈ ترتیب دینے اور روزانہ ہسپتال کا راو¿نڈ کر کے صفائی کا جائزہ لینےکی ذمہ دار ہو گی اور روزانہ اپنی رپورٹ اورتاثرات میڈیکل سپرنٹنڈنٹ لاہور جنرل ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر ندرت سہیل کو بھجوائے گی۔یقینا ایسے فیصلے دوسرے ہسپتالوں میں بھی ہو چکے ہوں گے جس سے ایک واضح بدلتا ہوا ماحول سامنے آئے گا۔محکمہ صحت میں کچھ اور انقلابی اور فوری توجہ طلب فیصلے بھی ضروری ہیں۔ڈاکٹروں کو سیاسی عناصر اور تشدد پسند عناصر سے بچانے کی منصوبہ بندیکی جائے۔اس وقت ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعدا د پاس آﺅٹ ہونے کے بعد جاب چاہتی ہے۔ایسے میں ڈاکٹروں خاص طور پر سرکاری ملازمت میں موجود میڈکل آفیسرز ویمن میڈیکل آفیسرز کے بیرون ملک ملازمتوں کے سلسلے میں چھٹی لینے کے طریقہ کار میں پابندی کو ختم کیا۔کم از کم دو سال کی رخصت تو لازماً دی جائے۔ متبادل ایڈہاک ڈاکٹر رکھے جا سکتے ہیں اور باہر جانے والے زر مبادلہ بھی آئے گا اور ملک میں ڈاکٹروں کی بے روزگاری بھی ختم ہو گی۔وزرا کی جوڑی کو سرجوڑ کر ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا اس لئے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔

ای پیپر دی نیشن