یہ دستور شاید ازل سے ہی رائج رہا ہے کہ لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف نَقل مَکانی کرتے رہے ہیں۔ بہت سے دیگر عوامل کے علاوہ یہ نَقل مَکانی عام طور پر بہتر روزگار اور خوب تر معیارِ زندگی کے حصول کےلئے ہوتی ہے۔ آج کل بچوں کی بہتر تعلیم کےلئے بھی والدین دیہات چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ یقیناً اس عمل سے نقل مکانی کرنےوالوں کی اکثریت کے مالی معاملات اور سماجی حالات واقعی قابلِ رشک ہو جاتے ہیں۔ ان کا رہن سہن دیکھ کر باقی لوگوں کے ذہنوں میں بھی شہری بابو کہلوانے کی امنگ انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ معاملہ فقط یہیں تک محدود نہیں ہے، لوگ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں اور بڑے شہروں سے آسودہ حال لوگ امریکہ اور یورپ سیٹل ہونے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ آجکل بیرون ممالک آباد ہونے کا سب سے زیادہ رجحان پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں میں پایا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر کلی دسترس ہونے کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت آگاہی پائی جاتی ہے۔ وہ نوعمری میں سوشل میڈیا پر اپنے بدیشی دوستوں کے ساتھ چیٹننگ (مکالمہ بازی) کرتے ہوئے اپنے ملک کے حالات کا امریکہ یا یورپ کے ممالک کے حالات سے موازنہ کرتے ہیں تو وہ وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ والدین بھی ان کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ کچھ اعلیٰ تعلیم کےلئے وطن کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور کچھ ڈنکی لگا کر غیر قانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ فیس بک پر دوستی ہونے کے بعد بہت سے بیس پچیس سال کے لڑکوں کے اپنی ساٹھ پینسٹھ سالہ فیس بک فرینڈز سے شادی کرکے باہر چلے جانے کے دلچسپ قصے گاہے بگاہے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ وہ والدین جو اپنے بیٹے کےلئے چاند سی دلہن تلاش کرتے وقت پتہ نہیں کتنے گھروں کا یکے بعد دیگرے طواف کرتے ہیں اور عام طور پر عمر زیادہ ہونے کا بہانہ تراش کر بات ختم کر دیتے ہیں، وہ بھی اِس بے جوڑ شادی پر خوشی سے دہرے تہرے ہوتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ساٹھ سالہ دلہن عمر میں اپنی ساس سے کافی بڑی ہوتی ہے۔ یعنی ساس کی ساس کے برابر.... اس طرح کی نقل مکانی کی شرح اگرچہ انتہائی کم ہونے کے باوجود دلچسپی سے خالی نہیں یوتی۔دراصل حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو رہائشی کالونیاں بنانے کی اجازت دینے پر نقل مکانی کے رواج نے بہت عروج پکڑا۔ بڑے شہروں میں رہائشی کالونیاں وجود میں آنے کے بعد عالیشان تجارتی اور رہائشی عمارتوں کے تعمیرات کے کاموں میں حصہ لینے کےلئے کثیر تعداد میں دور دراز کے دیہی علاقوں سے لوگ شہروں میں آئے اور اپنی قسمت تعمیرات کے شعبے سے وابستہ کر بیٹھے۔ بلا شبہ وسیع پیمانے پر گردش زر کی وجہ سے لوگوں کو روزگار کی سہولیات بھی میسر آئیں اور جی ڈی پی میں اضافہ بھی ہوا۔ جن لوگوں نے شہروں میں آ کر تعمیرات کے شعبے میں خدمات سرانجام دیں، انکی اکثریت واپس گاو¿ں جانے کی بجائے شہروں میں ہی رہائش پذیر ہو گئی۔ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آیا جو تعمیرات کے شعبے کو افرادی قوت مہیا کرتا تھا۔ انہی لوگوں میں سے تیز طرار اور ذہین فطین لوگ مستری، ٹھیکیدار اور نائیک کہلائے۔
جنوبی کوریا کی زبوں حال معیشت کو جب جنرل پارک نے سہارا دیا تو وہاں بھی انہیں نقل مکانی کا مسئلہ در پیش آیا۔ جنرل پارک کی ہر قومی معاملے میں دلچسپی مسلمہ تھی۔ انہوں نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ دیہی علاقوں میں بسنے والوں کی فی کس آمدنی شہری علاقوں کی نسبت زیادہ ہو گئی اور نقل مکانی کے سلسلے میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ مگر ہمارے ہاں ایسی سوچ پروان نہ چڑھ سکی۔ زرعی ملک کہلوانے والا ملک زراعت میں بھی خود کفیل نہ ہو سکا اور وہاں کے باسیوں کو سہولیات فراہم کرنے کی طرف کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ بے روزگاری اور نیم روزگاری کی وجہ سے شہروں کے علاوہ وہ محنت مزدوری کےلئے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں قسمت آزمائی کےلئے جاتے ہیں۔ دونوں طبقات کے ب±عد کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شرفاءکے بچے اعلیٰ پرائیوٹ سکولوں میں جبکہ غرباءکی اولادیں سرکاری سکولوں یا مدرسوں سے تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ ایک کے پاس دو وقت کی روٹی اور دیگر ضروریات کےلئے پیسہ نہیں ہے تو دوسرے کے پاس دولت کی اتنی بہتات ہے کہ خرچ کرنے کےلئے اسے امریکہ یا یورپ سدھارنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کسی زمانے میں بہت خوب صورت اور well planned شہر ہوا کرتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ ایک خاص حصے کو چھوڑ کر وہ بھی ایک عام شہر کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ مسلم لیگ ق کے دور میں غیر قانونی تعمیرات پر کوئی بازپرس کرنے کی بجائے اس کی درپردہ حوصلہ افزائی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اسلام آباد کے دیہی علاقوں نے بھی شہرِ کامل کا روپ دھار لیا ہے۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر فیض آباد سے لے کر کرال چوک تک ایک نیا غیر قانونی شہر آباد ہو گیا ہے۔ مری میں انگریزوں کے تعمیر کردہ مشہور اور تاریخی سیسل ہوٹل کو قوانین relax کرکے گرا دیا گیا اور وہاں رہائشی فلیٹ تعمیر کر دئیے گئے۔ فلیٹوں کی تعمیر میں بھی منظور شدہ بائی لاز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ منزلیں تعمیر کر دی گئیں جن کو بعد میں وزیر اعلیٰ کے خصوصی directive کے تحت regularise بھی کر دیا گیا۔ تحصیل راولپنڈی اور ٹیکسلا کم و بیش اربن ہو چکی ہیں۔ یہی حال لاہور کا ہے جو مکمل اربن ہو چکا ہے اور اس کی شہری آبادی اپنے ہمسائے اضلاع کے ساتھ مل گئی ہے۔ قیمتی زرعی زمین پر رہائشی کالونیاں قائم کرنے کے قومی نقصانات پر کسی نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ملتان اور بہاولپور میں بھی زرخیز زرعی زمین پر رہائشی کالونیاں بنائی گئیں۔ طارق بشیر چیمہ، ایم این اے بہاولپور نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی مگر اس کا کچھ نتیجہ نہ نکل سکا۔
جنوری 1972ءکے nationalisation کے عمل نے انڈسٹری اور معیشت کا بیڑہ تو غرق کیا ہی تھا، ہر حکومت کی زراعت کے شعبے میں برائے نام دلچسپی اور رہائشی کالونیوں کی بہتات نے زراعت کے شعبے کو بھی زبوں حالی عطا کر دی ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ پرائیوٹ سیکٹر میں رہائشی کالونیوں پر پابندی عائد کرے اور زرعی شعبے کی ترقی کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ اگر یہ شعبہ فعال ہونے میں کامیاب ہو گیا تو نقل مکانی کے عمل میں بھی نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔