”علاّمہ اقبال کی نظم۔” نوائے وقت!“

معزز قارئین! کل (23 مارچ 2023ءکو ) لاہور، کراچی، راولپنڈی / اسلام آباد، ملتان اور کوئٹہ سے بیک وقت شائع ہونے والے روزنامہ ”نوائے وقت“ کے اداریہ کی سرخی تھی ”آج کا یوم پاکستان اور نوائے وقت کے 84 سال“۔ 23 مارچ 2020ءکے ”نوائے وقت“ میں 23 مارچ 1940ءوالی پیشانی کے ساتھ اشاعت“ اور اخبار کی پیشانی (Masthead) وہی تھی جو قراردادِ پاکستان کے دِن 23 مارچ 1940ءکو جنابِ حمید نظامی کی ادارت میں شائع ہونے والے ”نوائے وقت“ کی تھی اور کل کے اخبار کی پیشانی پر ”مصّور پاکستان“ علاّمہ اقبال کا وہی شعر لکھا ہے جو 23 مارچ 1940ءکے ”نوائے وقت“ کی پیشانی پر لکھا تھا۔ 
 علاّمہ اقبال کی نظم ”خضرِ راہ “ کا شعر ہے....
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے!
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے!
....O....
معزز قارئین! مفسرِ کلامِ علاّمہ اقبال۔ مولانا غلام رسول مہر نے لکھا تھا کہ ” علاّمہ اقبال نے ”بانگ ِ درا“ میں شائع ہونے والی اپنی نظم ”خضرِ راہ“ اپریل 1922ءمیں اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ لاہور میں منعقدہ انجمن حمایت اسلام کے 32 ویں سالانہ اجلاس میں پڑھی تھی، وہ وقت عالمِ اسلام کے لئے بے حد نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔ سلطنت ِ عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ اتحادیوں کی ایماءپر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتار دِی تھیں۔ شریف حسین آف مکہ جنگ کے زمانے میں انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطنتِ عثمانیہ سے بغاوت کر چکا تھا۔ اس وجہ سے انگریزوں اور فرانسیسیوں کو عرب کے مختلف حصّوں میں براہ راست مداخلت کا موقع مل گیا تھا۔ اِس طرح مسلمانوں پر رنج و غم کی گھٹائیں چھا گئیں۔ ہمارے ملک (متحدہ ہندوستان) میں ہجرت کی تحریک جاری تھی، پھر خلافت اور ترک موالات کا دَور شروع ہوا۔ ہزاروں مسلمان قید ہوگئے۔ ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل آگئے۔ علاّمہ اقبال نے انہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر علیہ السلام کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی اور نظم کا نام ”خضرِ راہ“ اِسی وجہ سے رکھا کہ یہ مشکلات و مصائب کے لئے نہایت نازک دَور میں راہنمائی کا مینار تھی“۔ 
مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں کہ ”یہ نظم سننے کے لئے بے شمار لوگ جمع ہوگئے تھے۔ اندازہ کِیا گیا ہے کہ ”پورا مجمع 20 ہزار سے کم نہ ہوگا۔ بعض اشعار پر علاّمہ اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہوگیا۔ علاّمہ اقبال پر جتنی رقت ”خضر راہ“ پڑھنے کے دَوران طاری ہوئی اتنی کسی نظم کے دَوران نہیں ہوئی۔ 
نظم کے آٹھ بند ہیں۔ بند کے آخری چار یوں ہیں.... 
نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنگ!
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات !
....O....
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاو¿ں کے لیے!
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات!
....O....
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار !
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات !
....O....
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے!
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے!
....O....
مولانا غلام رسول مہر اِس بند کے چاروں شعروں اور آخری شعر کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ۔”نسل اور قومیت کا امتیاز، ذات پات کی تقسیم، کالے، گورے کی تقسیم مذہبی نظام، جس کی وجہ سے یورپ میں پادری اور ہندوستان میں براہمن صدیوں تک عوام پر مسلط رہے، پھر بادشاہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں بنا لیں۔ یورپ والے نئی تہذیب لے کر آگئے۔ یہ تمام ہتھکنڈے جمہور کو اپنے پھندے میں پھانسنے کے حیلے تھے۔ آہ! اے نادان (مسلمان) تو اِن خیالی دیوتاﺅں کے لئے لڑ لڑ کر جان قربان کرتا رہا اور انہیں انہی کے دیئے نشے میں مدہوش ہو کر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔ سرمایہ دار مکر کی چالیں چل چل کر بازی لے گیااور مزدور اپنی سادگی و سادہ لوحی کی بنا پر مات کھا گیا“۔
ماضی کی سرگزشت یہی ہے لیکن اے مزدورو! اب تمہیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے اب دنیا کی محفل نے اور ہی رنگ اختیار کرلِیا ہے۔ سرمایہ داروں کے ہتھکنڈوں کا زمانہ گزر گیا۔ اب مشرق و مغرب میں تیرا دَور شروع ہوتا ہے“۔
”مصّور پاکستان“ علاّمہ اقبال کے شیدائی۔ جنابِ حمید نظامی نے اپنے ”نوائے وقت“ کی پیشانی پر علاّمہ اقبال کی نظم ”خضرِ راہ“ کا یہ شعر سجا دِیا تھا۔ جس کی یاد 23 مارچ 2020ءکے روزنامہ ”نوائے وقت“ کی پیشانی پر سجائے گئے شعر میں دِلائی گئی۔ 
علاّمہ اقبال کی فارسی نظم ”نوائے وقت“ 
معزز قارئین! میری تحقیق یہ ہے کہ جنابِ حمید نظامی نے اپنے جریدے (بعد ازاں) روزنامہ کی شکل اختیار کرنے والے ”نوائے وقت“ کا نام رکھنے کے لئے بھی علاّمہ اقبال سے ہی روشنی حاصل کی تھی۔ 1921ءمیں علاّمہ اقبال کی فارسی تصنیف ”اسرارِ خودی“ شائع ہوئی جس کی ایک نظم تھی۔ ”نوائے وقت“۔ مَیں اِس موقع پر اس کا اردو ترجمہ ہی پیش کرسکتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں۔ 
”سورج میرے دامن میں ہے، ستارے میرے گریبان کے اندر ہیں، اگر تو مجھے دیکھنے کی کوشش کرے تو مَیں کچھ نہیں (یعنی نظر نہیں آتا) اگر اپنے اندر دیکھے تو مَیں تیری جان ہوں۔ مَیں شہر و بیابان میں ہوں، مَیں محل و شبستان میں ہوں۔ مَیں درد بھی ہوں، درمان بھی اور عیش فراوان بھی۔ مَیں تیغ ِجہاں سوز بھی ہوں اور آبِ حیات کا چشمہ بھی“۔
....O....
”چنگیزی ہو یا تیموری میرا غبارِ راہ ہیں، افرنگیوں کا ہنگامہ میرے اندر سے اٹھا ہوا ایک شرر ہے۔ انسان اور اسکا جہان سب میرے نقش و نگار ہیں، بہادروں کا خون جگر میری بہار کا سامان ہے۔ مَیں جلا دینے والی آگ ہوں۔ مَیں بہشت کا باغ ہوں“۔
....O....
”ساکن بھی اور حرکت میں بھی۔ یہ طرفہ تماشا دیکھ، میرے آج کی شراب میں آنے والے کل کا کیف دیکھ۔ میرے ضمیر کے اندر سینکڑوں عالمِ رعنا پنہاں ہیں، کئی ستارے آوارہ ہیں۔ کئی آسماں گردش میں ہیں....
سلسلہ روز و شب تارِ حریر دو رنگ!
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات!
....O....
مَیں انسان کا لباس ہوں، مَیں یزداں کا پیراہن ہوں۔ تقدیر میرے فسوں سے ظہور میں آتی ہے۔ تدبیر تیرا طریقہ ہے، تو لیلائے (جستجو ) کا عاشق ہے، مَیں تیری جولان گاہ ہوں۔ مَیں تیرے کم و بیش سے روح رواں کی طرح پاک ہوں، تو میرے اندر کا راز ہے اور مَیں تیرے اندر کا راز ہوں“۔
....O....
”مَیں تیری جان (کوششوں) سے ظاہر ہوں اور تیری جان ہی میں پنہاں ہوں۔ مَیں مسافر ہوں، تو منزلِ مقصود ، مَیں کھیتی ہوں تو میرا حاصل ہے ، تو ایسا ساز ہے جس سے سینکڑوں ساز نکلتے ہیں، تو اِس محفل کا ہنگامہ ہے۔ تو اِس دنیا میں سرگرداں ہونے کے بجائے اپنے دل کا مقام پہچان، دیکھ اِس جام (دل) میں ایک بحرِبے پایاں سمایا ہوا ہے۔ مَیں (بھی) تیری موجِ بلند سے اٹھا ہوا ایک طوفان ہوں “۔ 
....O....
معزز قارئین! میری طرف سے آپ کو علاّمہ اقبال کی نظم ”نوائے وقت“ قراردادِ پاکستان اور روزنامہ ”نوائے وقت“ کی 84 ویں سالگرہ مبارک ہو۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...