پاکستان آئی ایم ایف کے مالیاتی شکنجے میں

قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان معاشی بد حالی کا شکار رہا ، لہذا 11 ، برسوں بعد ہی پہلی مرتبہ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی استحکام کی ضرورت کے پیشِ نظر جنرل ایوب خان نے آئی ایم ایف سے تقریباًٍ چار کروڑ ایس ڈی آر کا معاہدہ کیا ، اور پاکستان عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف کا مستقل اور باقاعدہ کلائنٹ بن گیا یا کہہ لیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے مالیاتی شکنجے میں مستقل پھنس گیا ۔
اس سے پیشتر آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے ڈھائی کروڑ ایس ڈی آر کے پہلے قرضے کی منظوری دی تھی جو پاکستان نے نا معلوم وجہ کی بنا پر وصول نہیں کئے تھے، تین ہی سال بعد اکتوبر 1968 ءمیں فوجی حکومت نے آئی ایم ایف سے دوبارہ ساڑھے سات کروڑ ایس ڈی آر کا قرض لیا یوں کل قرضہ 11 ، کروڑ ایس ڈی آرسے زیادہ ایوب حکومت نے وصول کیا ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک ایک بار پھر معاشی بھنور میں تھا ، لہذا ملک کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مجبوراً آئی ایم ایف کا دروازہ تین مرتبہ کھٹکھٹانا پڑا ،پہلا 1973 ءاور دوسرے ہی سال یعنی 1974 ءاور 1977 ءمیں آئی ایم ایف سے ان تین معاہدوں کے نتیجے میں پاکستان کو کل 31 کروڑ ڈالر کا قرض ملا تھا۔
 جنرل ضیائالحق 1979 ءمیں ملک میں آئین کو معطل کر کے گیارہ سال تک مطلق العنان بنے رہے، انہوں نے آئی ایم ایف سے 1980 ءاور دوسرے ہی سال 1981 ءمیں دو معاہدے دو ارب ڈالر سے زیادہ کے کئے ،یہ امریکی ڈالر میں پہلا معاہدہ تھا اس سے پیشتر آئی ایم ایف نے گزشتہ حکومتوں سے ایس ڈی آر میں معاہدے کئے تھے ۔
ایس ڈی آر کسی کرنسی کا نام نہیں یہ ایک بین الاقوامی ریزرو اثاثہ ہے جس کی قدر کا اندازہ پانچ ممالک کی کرنسیوں کی باسکٹ سے اخذ کیا جاتا ہے ، ان میں امریکی ڈالر، یورپی یورو ، چینی یو آن( سرکاری نام آر ایم بی، RENMINBI )بھی ہے، جاپانی ین، اور برطانوی پونڈ سٹرلنگ شامل ہیں، 1973 ءکے بعد حیرت انگیز طور پر آئی ایم ایف سے قرضوں میں کروڑوں سے اربوں ڈالر کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے ، 1988 ءمیں بینظیر بھٹو نے بی آئی ایم ایف سے دو معاہدے کر کے 65کروڑ سے زیادہ ایس ڈی آر کے قرضے حاصل کئے ، 1988 ءاور 1999 ءکی درمیانی مدت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی حکومتوں دو دو مرتبہ مسند اقتدار پر آئیں ،اور مجموعی طور پر 1.5 ارب ایس ڈی آرحاصل کئے جس میں پیپلز پارٹی نے پانچ اور مسلم لیگ (ن) نے تین معادے کئے تھے ۔
جنرل پرویزمشرف نے منتخب جمہوری حکومت کا تحتہ الٹ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، جنرل پرویز مشرف نے بھی آئی ایم ایف سے سال 2000 ءاور سال 2001 ءمیں مجموعی طور پر ایک ارب ایس ڈی آر کے معاہدے کئے اس کے بعد آئی ایم ایف سے پاکستان نے سات سال تک کوئی قرض نہیں لیا ، 2008 ءمیں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا قرض بیل آﺅٹ پیکیج تقریباًٍ پانچ ارب ایس ڈی آر پیپلز پارٹی کی حکومت نے حاصل کیا ،2013 ءمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ملک کی تاریخ کا دوسرا بڑا قرض چار ارب ایس ڈی آر حاصل کیا ۔
2018 ءمیں عمران خان کی حکومت اسی تذہذب میں رہی کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کریں یا نہ کریں ،جس پر ملک میں خاصی بحث رہی ، آخر کار جون 2018 ءمیں عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کی منظوری لی ، آئی ایم ایف نے معاہدے اور شرائط کی رو سے ایک ارب ڈالر ادا کئے تو عمران خان نے مجوزہ آئی ایم ایف سے معاہدے سے انحراف کر دیا جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ نے مزید فنڈ روک دیئے ، اور اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، تحریک انصاف کی حکومت کے 39 مہینوں میں غیر ملکی قرضوںمیں 32 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تھا ۔
اسی دورانیہ میں پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر عمل در آمد کو یقینی بنا کر اور شرائط پر عمل کر کے عمران دور کے معاہدے کے تحت بقیہ فنڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ، ملک معاشی دلدل میں اس طرح دھنس چکا ہے کہ دوست ممالک نے بھی پاکستان کے لئے قرضوں کے اجراءکو آئی ایم ایف ڈیل سے مشروط کرر کھا ہے ، پاکستان کو سر دست بڑھتے ہوئے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت دباﺅ ہے ،اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلی گئی ہے جو کہ بیرونی ادائیگیوں کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
پاکستان کا آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض مجموعی طور پر 13.79 ارب ایس ڈی آر ہیں ، اب تک عالمی مالیاتی ادارے سے پاکستان کے 23 معاہدے ہو چکے ہیں،حالیہ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول کا معاہدہ طے پایا ہے جس سے پاکستان کو قرض کی آخری قسط کی مد میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر جاری ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے ، پاکستان پہلے ہی دو اقساط کی مد میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالر حاصل کر چکا ہے ، یہ پاکستان سے آئی ایم ایف کی قلیل مدتی قرض پروگرام کی آخری قسط ہے ۔
موجودہ مخلوط حکومت کو گھمبیر معاشی صورتحال سے نمٹنا پڑے گا ، جس میں ملک کی انتہائی کمتر معاشی ترقی، بے روزگاری، اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے ، گذشتہ چند سالوں میں اس بوجھ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ، کیا نئی حکومت ملک کو تاریخی قرضوں کے چنگل سے نکال پائے گی ، اس کے لئے حکومت کو ایک اکنامک مینجمنٹ منصوبے کی اشد ضرورت ہے جو اتفاق رائے کا متقاضی ہے ،میاں نواز شریف نے یہ کہہ کر عوامی سوچ کی ترجمانی کی ہے کہ ” آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس مزید مہنگی ہوگی عوام کا صبر کب تک آزمائیں گے “ ۔ 
 

ای پیپر دی نیشن