روزنامہ ”تسنیم“ لاہور سے وابستگی

تسنیم سے بطور نامہ نگار میری وابستگی تسنیم کے ایڈیٹر جناب ارشاد احمد حقانی، پبلشر جناب مصطفی صادق اور اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب آبادشاہ پوری سے قریبی تعلقات کا باعث بنی۔ میرے والدصاحب اپنی ہوزری فیکٹری کے لئے سوت خریدنے کی خاطر مجھے لاہور بھیجنے لگے۔ میں شاہ عالم مارکیٹ اور اعظم کلاتھ مارکیٹ میں جاتا اور مختلف دکانوں سے قیمتیں پوچھ کر سوت خریدتا۔ ایک روز میں شاہ عالم مارکیٹ میں تھا کہ میری نظر ممتاز محل ہوٹل کے قریب واقع ایک عمارت پرآویزاں تسنیم کے بورڈ پر پڑی، میں یوں تو شرمیلا اور کم آمیز تھا لیکن اخبارات کے دفاتر تک جانے اور ان کے ایڈیٹروں سے ملنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں تھی۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر تسنیم کے دفتر میں پہنچا جہاں میری ملاقات مصطفی صادق صاحب اور ارشاد احمد حقانی سے ہوئی۔ وہ دونوں ہی میرے نام اور کام سے واقف تھے۔ دراصل شورش پاکستانی کے نام میں ایسی تعجب خیزی تھی جسے سن کر ہر آدمی ہی چونک جاتا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے میرا تعارف جناب سعید ملک سے کرایا۔ مصطفی صادق صاحب بعد میں میرامذاق اڑانے کے لئے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ جب مجھے ملنے آیا تو میری میز سے تھوڑا ہی اونچا تھا۔ جب 1957 ءمیں ماچھی گوٹھ کے سالانہ اجتماع میں جماعت اسلامی کے ارکان اکٹھے ہوئے تو انتخابات میں حصہ لینے کے مسئلے پر جماعت کے اراکین دو حصوں میں بٹ گئے۔ مولانا مودودی کے حامیوں کا خیال تھا کہ مولانا کی رائے درست ہے کہ انتخابات میں حصہ لے کر اور اسمبلیوں میں پہنچ کر اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل قریب آسکتی ہے۔ مولانا موددی کے مخالف نکتہ نظررکھنے والوں کی رائے اس سے مختلف تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مولانامودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کے وقت معاشرے میں تبدیلی اور اصلاح کے لئے جو راستہ اور لائحہ عمل تجویزکیا تھا جماعت کو اس پر ہی قائم رہنا چاہئے۔ معاشرے کی اصلاح اور افراد کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ایسے مردان کار تیار کرنے چاہئیں جو خود تو انتخابات میں حصہ نہ لیں لیکن وہ سماج کے قدرے بہتر کردار کے لوگوں کونامزد کرسکیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن مولانا موددی اپنی رائے پر ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کی کوئی بات نہ سنی۔ اس اجتماع میں جناب مصطفی صادق نے اپنے موقف کے حق میں ایک قرار داد بھی پیش کی۔ اگرچہ انہیں ایک سو سے زیادہ ووٹ پڑے لیکن اکثریت نے مولانا کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس پر جناب ارشاد احمد حقانی اور جناب مصطفی صادق نے جماعت کے عہدوں اور تسنیم کی ادارت سے اپنے استعفے مولانا مودودی کو پیش کردیئے۔ مولانا نے اصرار کیا کہ آپ جلدی میں فیصلہ نہ کریں اور اپنے فرائض ادا کرتے رہیں مگر ارشاد احمد حقانی نے کہا کہ میرا منصب جماعت اسلامی کی پالیسیوں کی ترجمانی اور رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ اس بنا پر میںمدیر تسنیم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کرسکوں گا۔ مولانا نے بادل نخواستہ یہ استعفے منظور کرلئے۔ جب میرے تایا جماعت کے سالانہ اجتماع عام میں شرکت کے بعد ٹوبہ واپس پہنچے تو ان کے پاس جماعت کے دوسرے کارکن بھی آنے لگے۔ انہی کے پاس سے گزرتے اور آتے جاتے میرے کانوں میں ان استعفوں کی بھنک پڑی۔ میں نے فوراً ہی امروز کو خبر بھیج دی جو صفحہ اول پر شائع ہوئی اور اس کے بعد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈیٹ لائن سے جماعت اسلامی میں اختلافات کی میری بھیج ہوئی خبریں نمایاں طور پر شائع ہونے لگیں۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ مصطفی صادق صاحب تسنیم اور جماعت اسلامی چھوڑ کر لائل پور منتقل ہوگئے ہیں اور انہوں نے مولانا عبدالرحیم اشرف صاحب کے ہفت روزہ المنبر کی ادارت سنبھال لی ہے۔ میں ایک روز کسی کام سے لائل پور گیا ہوا تھا، مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں مصطفی صادق صاحب سے ملوں۔ میں جناح کالونی میں اشرف لیبارٹریز میں گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ وہ پہلی منزل پر دھوپ سینک رہے ہیں۔ میں بغیر کسی اطلاع کے اوپر کی منزل پر چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے خیالات میں مگن ہیں۔ میرے جانے سے ان کے غورو فکر کاسلسلہ منقطع ہوا اور وہ مجھے وہاں پا کر حیرت میں ڈوب گئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا گاﺅں لائل پور سے چار میل کے فاصلے پر رسالے والا ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع ہے۔ رسالے والا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آتے ہوئے آخری سٹیشن تھا۔ خیر رسمی باتوں کے بعد میں نے ان سے اجازت لی۔ چند ہی ہفتوں کے بعد مصطفی صادق صاحب سعید سہگل کے اخبار روزنامہ آفاق کے لائل پور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ ان کے تقرر میں جناب ذکریا ساجد کا ہاتھ تھا جو اس وقت آفاق کے ہیڈ آفس میں چیف نیوز ایڈیٹر تھے اور بعد میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروفیسر اورپھر ترقی پا کر شعبہ صحافت کے سربراہ ہوگئے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن