ابو سفیان نے قافلے کا راستہ تبدیل کیا اور ساحل سمندر سے نکل گیا اور ایک قاصد قریش کی طرف بھیجا کہ وہ واپس آجائیں قافلہ بسلامت پہنچ گیا ہے ۔ مگر ابو جہل نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بدر میں تین دن قیام کریں اگر مسلمان کہیں نظر آئے تو ان سے لڑیں گے ۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اور ۶ زریں ، ۸ تلواریں ، ۰۷ اونٹ اور ۲ گھوڑے تھے ۔ اسلام کا پرچم مصعب بن عمیر ، عقاب جھنڈا حضرت علی اور دوسرا جھنڈا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کو عطا ہوا ۔
جنگ کا آغاز اسود بن عبد الاسد سے ہوا ۔ اس کے مقابلے میں حضرت حمزہ ؓ تشریف لائے اور ایک ہی وار میں اسے جہنم واصل کر دیا ۔ اس کے بعد عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور اپنے بیٹے ولید کو لے کر میدان میں اترا ان کے مقابلے میں رسول خدا ﷺ نے حضرت علی ، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ کو بھیجا ۔ اللہ کے شیروں نے ان تینوں کو جہنم واصل کیا ۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی کفار اپنی طاقت کے سہارے لڑ رہے تھے اور مسلمان اللہ تعالی کی قوت کا سہار اڈھوند رہے تھے ۔ اللہ تعالی نے اس حق و باطل کے معرکہ میں ملائکہ کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی ۔ حضرت معوذ اور معاذ دونوں بھائیوں نے عہد کیا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے دشمن ابو جہل کو واصل جہنم کریں گے ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف فرماتے ہیں ایک نے مجھ سے پوچھا ابو جہل کہا ں ہے میں نے کہا کیوں پوچھتے ہو کہنے لگے اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ ابو جہل کو جہاں دیکھو ں گا واصل جہنم کروں گا ۔ ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ دوسرے نے بھی یہی پوچھا ۔ میں نے کہا کہ وہ ابو جہل ہے میرا بتانا ہی تھا کہ دونوں ابو جہل پر جھپٹ پڑے اور اسے زخمی کر کے زمین پر گرا دیا ۔ اتنے میں ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے حملہ کر کے حضرت معاذ کا بایاں بازوںکاٹ دیا ۔
رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی جاکر ابو جہل کی خبر لائے اس کا کیا انجام ہوا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودگئے تو انہوںنے دیکھا کہ ابو جہل دم توڑ رہا ہے ۔ آپ نے اس کا سر کاٹ کر آپ ﷺ کے قدموں میں رکھ دیا ۔ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فر مایا اے اللہ تیرا شکر ہے ۔ اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ سر بسجود ہو ئے اور پھر فرمایا کہ ہر امت میںایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعو ن ابو جہل تھا ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ بھی اس جنگ میں شریک تھے اور سب سے سخت جنگ کرنے والے آپ ﷺ تھے ۔ اللہ تعالی نے اس حق و باطل کے معرکہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ۔