جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کالعدم

چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کی صدر مملکت کو بھجوائی گئی سفارش کالعدم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف دائر ریفرنس میں تحقیقات کے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خود پر پڑنے والے دباﺅ کے حوالے سے جو سنگین الزامات عائد کئے تھے‘ سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں وہ الزامات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ فاضل بنچ نے قرار دیا کہ اس ریفرنس میں ضروری تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل تحقیقات کرتی مگر جسٹس شوکت صدیقی کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم رکھا گیا۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ جج کو ٹرائل کے بغیر ہٹانا عدلیہ کی آزادی کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ فاضل عدالت نے 23 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ بدقسمتی سے عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس کیس کے فیصلہ میں تاخیر ہوئی جبکہ جسٹس شوکت صدیقی اس وقت اپنی ریٹائرمنٹ کی آئینی میعاد پوری کر چکے ہیں اس لئے انہیں انکے منصب پر بحال نہیں کیا جا سکتا تاہم وہ ریٹائر تصور ہونگے اور بطور جج پنشن سمیت اپنی تمام مراعات حاصل کرنے کے مجاز ہونگے۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت کی جانب سے جاری کیا گیا جسٹس شوکت صدیقی کی برطرف کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔ 
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو جولائی 2018ءمیں اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے اجلاس میں کی گئی اپنی تقریر میں بعض مقتدر شخصیات کی جانب سے دباﺅ ڈالے جانے کے عائد کردہ الزامات کی بنیاد پر وفاقی حکومت کے 24 جولائی 2018ءکے خط کے ذریعے چارج شیٹ کیا گیا اور اسکی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا اور اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں جج کے منصب سے برطرف کرنے کی سفارش صدر مملکت کو بھجوادی جس کی بنیاد پر اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انکی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی برطرفی کے نوٹیفکیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا مگر انکی یہ اپیل مسلسل ساڑھے پانچ سال تک زیرالتواءرہی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا منصب سنبھالنے کے بعد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کیخلاف سابق صدر آصف علی زرداری کی 2010ءمیں دائر کردہ نظرثانی کی درخواست کے ساتھ ساتھ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف زیرالتواءاپیل کی سماعت کیلئے بھی اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا خصوصی بنچ تشکیل دے دیا جس کا گزشتہ روز فیصلہ صادر کر دیا گیا۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نظام عدل کی بنیاد ہی ”انصاف ہوتا ہوا نظر آنے“ کے آفاقی اصولوں پر رکھی گئی ہے جس میں شفاف ٹرائل اور کسی بھی ملزم کو اپنے دفاع کا موقع فراہم کرنا انصاف کا لازمی تقاضا ہے۔ اس حوالے سے ہماری عدلیہ کی تاریخ بدقسمتی سے انصاف کے ترازو کو ماضی میں زورآور طبقات کے دباﺅ کی بنیاد پر انکی جانب جھکاتی نظر آتی رہی ہے جس کیلئے نظریہ ضرورت کی اصطلاح بھی عدلیہ کی جانب سے ہی ایجاد کی گئی اور ماورائے آئین اقدامات کو تحفظ دیا جاتا رہا۔ اسی طرح عدالتی پلیٹ فارم کو حکمران طبقات کی جانب سے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی مثالیں بھی ہماری عدلیہ کی تاریخ میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے 2018ءسے 2023ءتک کا عرصہ عدل گستری کا بدترین عرصہ سمجھا جاتا ہے۔ جب اس وقت کی حکمران پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کی بلیم گیم اور منافرت کی سیاست ہماری عدل گستری میں بھی درآئی اور پی ٹی آئی کے بانی قائد کے اقتدار کے دور میں بھی اور پھر انکے اپوزیشن کے دور میں بھی انکے سیاسی مخالفین کو عدلیہ کے پلیٹ فارم پر چن چن کر نشانہ بنایا جاتا رہا اور مزید بدقسمتی یہ کہ عدل گستری کے سربراہان خود ایسے اقدامات میں پیش پیش رہے۔ انصاف کی اسی عملداری میں اعلیٰ عدلیہ کے اپنے ارکان بھی سیاسی انصاف کی زد میں آئے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس دائر ہوا تاہم سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کیخلاف عائد الزامات ثابت نہ ہو سکے اور وہ اس ریفرنس میں سرخرو ہوئے مگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف عائد الزامات میں اپنی صفائی کا موقع تک فراہم نہ کیا گیا اور جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جوڈیشل کونسل نے وفاقی حکومت اور اس وقت کے آرمی چیف کے بھجوائے محض دو مراسلوں کی بنیاد پر انکی برطرفی کی سفارش صدر مملکت کو بھجوادی۔ انکے ساتھ مزید ناانصافی یہ ہوئی کہ انکی سزا کیخلاف دائر اپیل کی سماعت کی نوبت ہی نہ آنے دی گئی اور اسی دوران انکی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہو گئی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری عدل گستری میں اگر خود منصف کو آئین و قانون کے تقاضے کے مطابق انصاف نہیں مل سکا تو بے وسیلہ عام طبقات کیلئے انصاف کی حقیقی عملداری کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً انہی حالات و شواہد کی بنیاد پر فراہمی انصاف کے معاملہ میں ہماری عدل گستری عالمی رینکنگ میں 134ویں نمبر پر آئی جو ہمارے نظام عدل و انصاف کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ 
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدل گستری میں ماضی میں ہونیوالی غلطیوں کے ازالہ کی جانب پیش رفت کا آغاز کیا ہے اور خوداحتسابی کا دروازہ کھولا ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت عظمیٰ کے ایک خصوصی بنچ نے بھٹو قتل کیس میں دائر نظرثانی کی درخواست پر اپنی فائنڈنگ میں قرار دیا کہ بھٹو کے ساتھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوا اور انہیں اپنے دفاع اور اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔ اب عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کے فیصلہ کے تحت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن اس فائنڈنگ کے ساتھ کالعدم قرار دیا گیا ہے کہ انہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے دفاع کے حق سے محروم کیا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ نے اپنے ہی برادر جج مظاہر نقوی کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس میں ٹرائل کے دوران انکے مستعفی ہونے کے بعد بھی ٹرائل جاری رکھنے کی نئی اور مثبت مثال قائم کی اور انکے خلاف الزامات ثابت ہونے پر انہیں برطرف کرنے کی سفارش صدر مملکت کو بھجوائی۔ یہ بھی یقیناً ادارہ جاتی خوداحتسابی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس بنیاد پر اگر تمام ریاستی‘ انتظامی ادارے عدالت عظمیٰ جیسا خود احتسابی کا اصول لاگو کرکے اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو اس سے معاشرے کو ادارہ جاتی سطح پر میرٹ اور انصاف کے قتل‘ اقرباپروری اور کرپشن کے راسخ ہوئے کلچر سے دائمی خلاصی مل سکتی ہے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے ہمارے دوسرے ریاستی اور انتظامی اداروں کیلئے قابل تقلید ہیں۔

ای پیپر دی نیشن