وکی لیکس نےدس مارچ دوہزار آٹھ کو صدر آصف زرداری اور سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کےدرمیان ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ خفیہ کیبل کے مطابق بھوربن معاہدے کے بعد آصف علی زرداری نے اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو کہا تھا کہ وہ فکرنہ کریں انہیں عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ نومارچ دوہزار آٹھ کو انتخابات میں کامیابی کے بعد دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا مری میں خصوصی اجلاس ہواتھا۔ مری اعلامیے پر دستخط کے اگلے روز آصف علی زرداری نے امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کو بتایا کہ وہ اور میاں نوازشریف اس بات پر راضی ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال نہیں کیا جائے گا جبکہ مری اعلامیے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ تیس دن کے اندر تمام معذول ججوں کو بحال کردیا جائے گا۔ وکی لیکس کے مطابق صدر آصف علی زرداری چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سرکاری تحویل کےخلاف تھے ان کا خیال تھا کہ ایک نئی قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ چیف جسٹس اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھے۔ امریکی سفیرکی جانب سے تیس روز کی ڈیڈ لائن کا پوچھنے پر صدر زرداری نے کہا کہ سیاست میں تیس روز نوے بھی ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سابق امریکی سفیر نے پرویزمشرف کے ہم سُخن ندیم تاج اور مشرف کے قومی سلامتی کے مشیر طارق عزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ صدر زرداری نے حکومت سے کہا تھا کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کوئٹہ میں ان کے گھر منتقل کردیں تاہم حکومت نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری موقع ڈھونڈ رہے ہیں اگر اُن کے ساتھ زبردستی کی گئی تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ این ڈبلیو پیٹرسن کے مطابق آصف زرداری کو پرویز مشرف اور ان کے مشیر طارق عزیز کے ساتھ کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر وہ قاف لیگ کے ساتھ صرف اس صورت میں کام کرنے کو تیار تھے کہ چوہدری برادران اس میں شامل نہ ہوں۔ تاہم بعد میں انہوں نے پرویز مشرف کو بھی اقتدار سے بے دخل کیا اور چوہدری برادران سمیت قاف لیگ سے معاہدہ بھی کرلیا۔