چيف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی ميں سپریم کورٹ کے تين رکنی بینچ نے اين آئی سی ايل کيس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغازپرڈائریکٹرایف آئی اے کراچی معظم جاہ نے عدالت کوبتايا کہ این آئی سی ایل سکینڈل کراچی میں کرپشن کی نذرہونے والی تمام رقم برآمد کروالی گئی ہے جس کی مالیت ایک ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے جبکہ سکینڈل میں ملوث نوافراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جوبعد میں ضمانتوں پررہا ہوئے۔ ڈائریکٹرایف آئی نے مزید کہا کہ مخدوم امین فہیم سے چارکروڑروپے لینا باقی ہیں اور وفاقی سيکرٹری تجارت ظفرمحمود نےايف آئی اے کی کارکردگی پراطمينان ظاہرکيا ہے۔ سماعت کے دوران سیکرٹری کامرس ظفرمحمود نے سابق چیئرمین نیشنل انشورنش کمپنی لمٹیڈ سردارایازنیازی کی تقرری کی تفصیلات عدالت میں پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ سردارایازخان نیازی چیئرمین کے عہدے کے لیے موزوں نہیں تھے مخدوم امین فہیم اورسابق سیکرٹری کامرس سلمان غنی نے ایازخان نیازی کی تقرری کےلیے سمری وزیراعظم کوبھجوائی تھی۔ چيف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امين فہيم نے اس شخص کو بطور چيئرمين اين آئی سی ايل لگایا جو اس عہدےکا اہل نہيں تھا۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات پرعدم اطمینان کا اظہارکرتےہوئے کہا کہ غلط اقدامات کا علم ہونے پرذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ سپریم کورٹ نے سابق چیئرمین این آئی سی ایل سردارایازنیازی کی غیرقانونی تقرری پرایف آئی اے کومخدوم امین فہیم اورسابق سیکرٹری کامرس سلمان غنی کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت سات جون تک ملتوی کردی۔