”سونامی اور کمزوریاں“

May 24, 2013

مسرت قیوم

آج ”پی ٹی آئی“ کے ”ڈیفنس“ میں احتجاجی دھرنے کا آٹھواں روز تھا۔ جوش خروش ہنوز روز اول جتنا تھا۔ آج اطلاعات تھیں کہ ”دھرنا“ ختم کر دیا جائے گا(اور وہی ہوا) مگر خواتین، بچے بضد تھے کہ حق ملنے تک ایسا نہیں ہونا چاہئے مگر شاید اکثریت نہیں جانتی کہ ”باہر کی دنیا اور ”اقتدار کی غلام گردشوں“ میں کتنا فرق ہے۔
 اظہار رائے جمہوریت کا حسن ہے، ہر فرد کو اس کا آئینی، قانونی، جمہوری حق ہے۔ لوگوں کا متفقہ موقف تھا کہ ہماری خواہش رائے کو کوئی ادارہ، فرد یا طاقت کیسے اپنی مرضی میں بدل سکتے ہیں۔ آخری روز تصادم پر بھی لوگ سراپا احتجاج نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”فریق مخالف“ انتشار پھیلانے پر کیوں مصر ہے۔ تصادم کو کیوں ہوا دینا چاہتا ہے۔ ہم بھی تو ماﺅں، بہنوں کے جگر گوشے، بھائی ہیں قوم کے نوجوانوں میں لڑائی کروانا کس کا ایجنڈہ ہے؟؟؟
”میڈیا“ کی طرف سے بعض شرارتوں کا بھی لوگوں نے جواب دیا کہ کھابے اڑائے جا رہے ہیں۔ پکنک والا ماحول ہے“ کچھ دن پہلے شدید طوفان تھا، مٹی کا ایک شدید ریلا آیا مگر بچے، خواتین ڈٹے رہے“ نوجوانوں نے چاروں طرف سے ”بانسوں“ کو اس طرح پکڑا کہ ہوا بھی گھبرا کر مدھم پڑ گئی مگر نہیں کمزور پڑے تو ہمارے جذبات.... ایک ”بچی“ گویا ہوئی کہ تین دن سے گرمی جوبن پر ہے۔ سورج بھی ڈوب جاتا ہے مگر نہیں ڈوبتے تو ہمارے خیالات .... یہ ”کھابہ گروپ“ نہیں ہمارے سامنے سچائی کا سجا ہوا میدان ہے۔ حق سچ کی آواز ہے۔ ہم اس آواز کو غروب نہیں ہونے دینگے ”ممی ڈیڈی“ گروپ ”برگر فیملی“ سب الزامات پر ”دھرنا“ میں موجود لوگوں کی رائے تھی کہ ہم اس پر فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ ہاں ہم ”برگر فیملی“ ہیں ہم برگر کھائیں، ائر کنڈیشنڈ میں رہیں یا مہنگی تعلیم حاصل کریں۔
 ہم اپنی جیب سے کھاتے ہیں حق حلال کی محنت سے حاصل کردہ سرمایہ سے لوگوں کو روز گار بھی دیتے ہیں ”65 سالوں“ سے جدی پشتی خاندان”اربوں روپیہ کھا کر بھی ”حرص“ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ سارا ملک کھا کر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرا اور ہم اپنی گرہ سے کھانے والے پھر بھی الزام تراشی کی زد میں ہیں“ ان کو سبق سیکھنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔
لوگوں کا جذبہ اپنی جگہ موجودہ الیکشن اور جاری ”احتجاجی کیمپوں“ میں ”تحریک انصاف“ کی بہت سی خامیاں بھی نظر آئیں۔ تنظیمی نظم و نسق کی حالت چنداں خوشگوار نہیں تنظیم سازی کو ”جدیدیت کے تڑکے“کے علاوہ قومی و مقامی سطحوں کے مزاج، روایات کیمطابق استوار کریں“ باہمی ربط، تنظیم، رابطہ بہت ضروری ہے“ ”عمران خان“ کے زخمی ہونے پر ایک بہت بڑا خلا محسوس ہوا۔ اس خلا کو ”نوجوان ووٹرز“ کے جوش جنون نے دبا رکھا تھا مگر الیکشن کے نتائج نے آشکار کر دیا ”تنظیمی ڈھانچہ اتنا مضبوط ہو کہ ”دوسرے درجہ کی قیادت“ بھی ”اول صف“ کی قیادت کا کردار بخوبی نبھا سکنے کی صلاحیت رکھتی محسوس ہو“ ۔
جس طرح کی کامیابی اور تبدیلی کی نوید”یوتھ“ کو دی گئی تھی وہ پوری نہ ہوسکنے پر ”نوجوان طبقہ“ بری طرح دل گرفتہ اور رنجیدہ ہے ”عمران خان“ کو نوجوانوں کی تالیف قلب اور ”حامی ووٹرز“ کی امیدوں کو پورا کرنے کےلئے ”پارٹی“ کو ”روایتی چہروں اور میڈیا کوریج“ کے شائق لوگوں سے پاک رکھنا بہت ضروری ہے۔
 اکثر مواقع پر دیکھا اور نوٹ کیا کہ گرمی اور رات کی سختی بہت کم لوگوں نے اٹھائی اور ظاہر نہ ہوئے۔ شکوہ کناں نظر آئے جبکہ عین ہجوم کے وقت چند مخصوص لوگ بن سنور کر آتے اور سیدھے کیمروں کے آگے“ پھر آگے سے ہلنے کا نام نہ لیتے“
 یہ سب کچھ نیا نہیں مگر ایسی ”پارٹی“ میں اچھا نہیں تصور کیا جا رہا جو ”تبدیلی“ کا دعویٰ کرتی ہے۔ مخلص وفادار، جانثار لوگ ہی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی برابر حوصلہ افزائی آئندہ کے الیکشن میں”کلین سویپ“ کا خواب پورا کر سکتی ہے ورنہ دھرنا ہو یا الیکشن یا اب حکومت سازی کے بابت امور، تمام میں باہمی اشتراک، اتحاد، نظم، مشاورت، بہت کلیدی اہمیت کی حامل ہے“۔

مزیدخبریں