ان دنوں چینی وزیراعظم لی کی کیانگ کا دورہ¿ بھارت اور پاکستان عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے سیاسی، معاشی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ان دوروں کے مثبت اور منفی نتائج کا جائرہ لینے میں مصروف ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاک چین دوستی کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے کیونکہ گزشتہ نصف صدی سے زاید عرصہ میں یہ مشکل امتحان پر پوری اتری ہے اس لحاظ سے اسے ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہرا ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے۔ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے بااعتماد دوست ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اب تک بیجنگ نے اقتصادی اور فوجی شعبوں میں پاکستان کو مستحکم کرنے کےلئے فیاضانہ تعاون کیا ہے۔ اس سلسلے میں چشمہ نیوکلیر پلانٹ، ٹیکسلا ہیوی مکینکل کمپلیکس، قراقرم ہائی وے اور گوادر بندرگاہ کے منصوبے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں دفاعی شعبہ میں بھی چین نے نہ صرف پاکستان کے اشتراک سے جدید جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے تیار کئے ہیں بلکہ چار فریگیٹ بحری جہاز اور ایک میزائل بردار بحری جہاز پاکستان نیوی کے حوالے کر کے اسلام آباد کی بحری قوت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ جے ایف17 تھنڈر لڑاکا طیارے روس، امریکہ، فرانس اور برطانیہ ساخت کے تمام لڑاکا طیاروں کے ہم پلہ ہیں اور ہر قسم کے موسم اور جغرافیائی ماحول میں بھارتی طیاروں کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارتی فوجی تیاریوں کے پیش نظر پاکستان اور چین کے مابین دفاعی تعاون اور بھاری اسلحہ کی تیاری خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ممالک اسلحہ سپلائی کرتے وقت کئی سیاسی اور اقتصادی شرائط بھی ساتھ منسلک کر دیتے ہیں۔ چینی وزیراعظم لی کی کیانگ نے پاکستان کا دو روزہ سرکاری دورہ کرنے سے پہلے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا ہے اور نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے مذاکرات کئے ہیں۔ دونوں ممالک نے باہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مزیں برآں چین اور بھارت نے آٹھ معاہدوں پر دستخط کرنے کے علاوہ باہمی تجارت کو 2015ءتک 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ نئی صورتحال پاکستان کےلئے پیش آمدہ خطرات کی حامل ہے مگر ہمارے نزدیک بھارت اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا معاشی تعاون اور امن قائم کرنے کی خواہش موجودہ عالمی نظام کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کیونکہ دنیا اب ایک گلوبل ویلج کا درجہ اختیار کر چکی ہے دنیا کی تمام اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ اب تنازعات کو حل کرنے کا واحد حل نہیں ہے۔ اس تناظر میں تمام ممالک نے اپنی توجہ اپنے اقتصادی استحکام اور برآمدات کے فروغ پر مرکوز کر رکھی ہے۔ امریکہ اس وقت 16ٹریلین ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار کے ساتھ پہلے درجے پر جبکہ چین7 ٹریلین ڈالر جی ڈی پی کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ جاپان 4.3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ تیسرے اور بھارت 3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ اسی طرح امریکہ کی برآمدات کا کل حجم 1.1 ٹریلین ڈالر ہے جو کہ چین کے 1.2 ٹریلین ڈالر سے کچھ کم ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی برآمدات150 ارب ڈالر ہیں جو کہ پاکستان کی برآمدات 20 ارب ڈالر کے مقابلے میںتقریباً آٹھ گنا ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کا موجودہ عالمی اقتصادی مقام اس کی تجارت اور پرامن خارجہ پالیسی کا مرہون منت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے بیجنگ نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ علاقائی جنگوں میں الجھنے سے اجتناب کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسے اب اپنے دوستوں اور دشمنوں میں کوئی تمیز نہیں رہی ہے وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ بھارت اس کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی قوت سے خائف ہے اور بحر ہند کے علاقہ میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے علاقے میں پاکستان اس کا آزمایا ہوا دوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیجنگ نے گوادر بندرگاہ کی تعمیر ترقی اور انتظام و انصرام میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔ گوادر بندرگاہ کو خلیجی پانیوں میں آبنائے ہرمز کے ساتھ واقع ہونے کے باعث بے پناہ سٹریٹجنگ اہمیت حاصل ہے چین کے بحری جہازوں کی اس علاقے میں موجودگی سے پاکستان کے ساحلی علاقوں کا دفاع مضبوط ہو جائے گا۔
چین کے وزیراعظم لی کی کیانگ نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری، نگران وزیراعظم کھوسو اور متوقع وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ مستقبل قریب میں میاں نواز شریف بیجنگ کا دورہ کر کے پاکستان اور چین کے درمیان قائم دوستانہ رشتوں کو وسعت دیں گے۔ پاکستان گزشتہ 12 سالوں سے دہشت گردی کے ہاتھوں بے پناہ جانی و مالی نقصانات اٹھا چکا ہے۔ ان حالات میں اسے امن اور اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ چین توانائی کا بحران حل کرنے میں پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ نیٹو اور امریکہ کے فوجی دستے2014ءتک افغانستان سے نکلنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں منتخب ہونے والی نئی جمہوری حکومت نے قیام امن کےلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حمایت کر دی ہے۔ غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاءکے بعد ایک مستحکم اور پرامن افغانستان ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ حال ہی میں چین نے بھی افغانستان میں کرزئی حکومت کی مدد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کیونکہ افغانستان میں چین کی موجودگی وہاں بھارت کا اثر و رسوخ زائل کرنے میں معاونت کرے گی۔ اس تناظر میں چینی وزیراعظم کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے علاقہ میں ایک نیا سٹریٹجک توازن وجود میں آئے گا۔