لاہور (رپورٹ سرفراز خان+ وقت نیوز) آئی جی پنجاب آفتاب سلطان نے 600 گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کر کے کروڑوں روپے کی ریکوری کرنے والے دونوں اکاﺅنٹنٹس کو معطل کر دیا۔ 2009 میں سی سی پی او آفس کے اکاﺅنٹنٹ حسن محمد نے 600 گھوسٹ ملازمین کا کروڑوں روپے کی تنخواہوں اور ادائیگی کی مد میں سکینڈل بے نقاب کیا۔ اس وقت کے سی سی پی او لاہور پرویز راٹھور نے ایس ایس پی ایڈمن کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی جس نے چند ہفتوں کے اندر 70 اے ایس آئیز، دو وارڈنز، ایک بیوہ سمیت 600 ملازمین کو تنخواہوں اور الاﺅنسز کی مد میں ادا کئے گئے ڈیڑھ کروڑ روپے برآمد کر کے ملزمان کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے۔ بعد ازاں حسن محمد کو سکینڈل پکڑنے کی وجہ سے بطور ”انعام“ چار ماہ کی جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا۔ ان کے بعد تعینات ہونے والے اکاﺅنٹنٹ محمد بلال نے کیس کی پیروی کرتے ہوئے گھوسٹ ملازمین سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی ریکوری کی جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کے آفس میں تبدیل کر دیا گیا۔ حسن محمد کو گھوسٹ ملازمین کے سرپرستوں نے کیس واپس نہ لینے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اسی دوران انہیں ایڈیشنل آئی جی چودھری تنویر احمد نے سزا دے دی جو اپیل پر سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن نے ختم کر دی اور کہا اچھے کام کی جزا ہوتی ہے سزا نہیں۔ چند ہفتے قبل سی سی پی او آفس کی طرف سے معاملے کی رپورٹ آئی جی پنجاب آفتاب سلطان کو بھجوائی گئی تو انہوں نے معاملہ کی انکوائری کے لئے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ امجد جاوید سلیمی اے آئی جی ڈسپلن ڈاکٹر محمد رضوان پر مشتمل دو رکنی کمیٹی تشکیل دے دی اس کمیٹی نے گھوسٹ ملازمین کو ادائیگیوں کے دوران لاہور پولیس کے ڈی ڈی اوز کے کردار کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور قرار دیا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے لازم ہے اس وقت کے ڈی ڈی اوز ملک محمد اقبال، چودھری محمد شفیق، مظہر فاروق خان، عمران ارشد اور ارسلان ملک کے بھی بیان لئے جائیں۔ اس سے قبل کہ سینئر پولیس افسروں کے بیانات قلمبند ہوتے آئی جی پنجاب آفتاب سلطان نے دونوں اکاﺅنٹنٹس کو معطل کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے گھوسٹ ملازمین کو ہر ماہ تنخواہوں اور الاﺅنسز کی مد میں ایک کروڑ روپے ماہانہ کی ادائیگی کی جاتی رہی۔ اس معاملہ کی شفاف انکوائری کی جائے تو بڑے بڑے نیک نام پولیس افسروں کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جائے گی۔ آئی جی آفس کے ذرائع کا کہنا ہے واقعہ کی شفاف تحقیقات کی جا رہی ہیں اور جو بھی پولیس آفیسر واقعہ میں ملوث ہوا اسکے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔