اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + نیوز ایجنسیاں) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں نوازشریف کی شرکت کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ بھارت سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اس حوالے سے اعلیٰ سطح پر مشاورت کر رہے ہیں اور نئی بھارتی حکومت کی ممکنہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں اس معاملے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کی دعوت قبول کرنے کی تجویز کی حمایت کی۔ دریں اثناء بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر آر سی راگھوان نے کہا کہ نریندر مودی کی حلف برداری میں شرکت کے لئے پاکستان کو بھجوائے گئے دعوت نامے کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔ سارک ممالک کے سربراہان یا وزرائے اعظم کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو نریندر مودی کی جانب سے تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت پر فیصلہ پیر کو کیا جائے گا، اس سلسلے میں سکیورٹی اور خارجہ امور کے ماہرین سمیت دیگر فریقوں سے مشاورت جاری ہے، بات چیت سے ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت نوازشریف کے جواب کا منتظر ہے، دوسرے سارک ممالک کے سربراہوں کی مودی سے مختصر ملاقات کا شیڈول ترتیب دیدیا گیا ہے۔ اے این این کے مطابق بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت قبول کرلی جبکہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ون ٹو ون ملاقات بھی متوقع ہے۔ دریں اثناء امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ بھارت کی مخالفت کر دی۔ نوازشریف کے دورہ بھارت سے کشمیریوں کو اچھا پیغام نہیں ملے گا۔ اے این این کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کو وزارت خارجہ نے نامزد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کا مشورہ دے دیا۔بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنرعبدالباسط نے کہاہے کہ اگلے پانچ ماہ پاکستان بھارت تعلقات میں انتہائی کٹھن اور اہم ہونگے، مودی حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں، مسئلہ کشمیر کو مذاکراتی میز پر سر فہرست رکھنا ہوگا۔ نئی دہلی میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباسط نے نامزد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیئے جانے کی تصدیق کی اورکہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں اس سلسلے میں ضروری ہے کہ دونوں ممالک کشمیر جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔