اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ ایجنسیاں) سندھ اور پنجاب میں مذہبی مقامات اور کتابوں کی مبینہ بے حرمتی کیخلاف 100سے زائد سکھ سردار نیوپال سنگھ سربراہ سکھ سنگت کی قیادت میں مظاہرہ کرتے ہوئے ریڈ زون اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے رکاوٹیں اور دروازہ توڑ کر پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ڈیڑھ گھنٹے تک پارلیمنٹ کے احاطے میں قبضہ جمائے رکھا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز دوپہر 12بجے کے قریب اپوزیشن رہنما اعتزاز احسن، سینیٹر رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور دیگر پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ اچانک 100سے زائد سکھ نعرے لگاتے ہوئے تمام رکاوٹوں اور مین گیٹ توڑ کر پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہو گئے انہوں نے اپوزیشن رہنمائوں کی پریس کانفرنس بند کرا دی اور سٹیج پر قبضہ کر لیا۔ سکھ مظاہرین اپنے مقدس مقامات اور کتاب کی بے حرمتی کیخلاف اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اس موقع پر پولیس اور انتظامیہ بالکل بے بس نظر آئی۔ سکھ مظاہرین جب سکیورٹی حصار توڑ کر ریڈ زون میں داخل ہو رہے تھے پولیس نے آنسو گیس کے اِکا دُکا شیل فائر کئے اور ہلکا لاٹھی چارج کیا تاہم سخت کارروائی سے گریز کیا۔ اطلاع ملتے ہی چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد آفتاب سلطان چیمہ وہاں پہنچ گئے پولیس اور کمانڈوز کی اضافی نفری طلب کرلی گئی۔ سکھ مظاہرین اسکے باوجود آزادی سے احتجاج کرتے رہے۔ تاہم بعدازاں مسلم لیگ ن کے اقلیتی ایم این اے درشن لال، سینیٹر ظفر علی شاہ اور سینیٹر سردار علی سکھوں کے پاس گئے اور مذاکرات کرکے انہیں پارلیمنٹ کی حدود سے باہر جانے پر رضامند کر لیا۔ انہوں نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ ان کی مقدس کتابوں اور مقامات کی بے حرمتی کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جائیگا اور انکے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ سکھ مظاہرین کے نمائندوں نے صحافیوں کو بتایا کہ 2009ء سے اب تک انکے گوردواروں پر 7 حملے ہو چکے جبکہ 5 اور 8 مئی کو اندرون سندھ ہماری مقدس کتابوں کو جلایا گیا۔ احتجاج ریکارڈ کرانے کے باوجود ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شکار پور اور دیگر شہروں میں ہماری مقدس کتب کی بے حرمتی میں ملوث افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے جس کے بعد سکھ مظاہرین پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر ظفر علی شاہ نے کہا سکھ پاکستان کے قابل احترام شہری ہیں جو پاکستان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی کوئی اور پاکستانی کرتا ہے۔ سکھوں نے 5مطالبات پیش کئے جنہیں ہم حکومت تک پہنچائیں گے اور سکھوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کیلئے حکومت سے بات کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سکھ مظاہرین اور انکے قائدین نے مرکزی دروازے کو عبور کرکے پارلیمنٹ میں داخل ہونے پر معافی مانگی ہے۔ انہوں نے کہا ملک میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، سندھ حکومت سکھوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی روک تھام کیلئے کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہاکہ قائد ایوان سینٹ راجہ ظفر الحق نے وزیراعلیٰ سندھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ دستیاب نہ تھے تاہم آئی جی سندھ سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی تو آئی جی نے بتایا کہ ملزموں کے خلاف 295اے کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔ دریں اثناء چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری اور وزیر داخلہ نے پارلمینٹ ہائوس کے احاطے میں سکھوں کے داخل ہونے پر رپورٹ طلب کرلی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے سکھ احتجاجی مظاہرین کی جانب سے پارلیمنٹ ہائوس کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہونے اور ناقص سکیورٹی انتظامات پر ایک ایس پی، تین ڈی ایس پیز اور تین ایس ایچ اوز کو فوری طور پر معطل کرنے کا حکم دیدیا۔ ان سات افسروں و اہلکاروں کو چارج شیٹ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔ چودھری نثار علی خان کی صدارت میں اسلام آباد میں امن وامان کی صورتحال پرغور کے لیے اجلاس ہوا۔ جاری اعلامیے کے مطابق وزیر داخلہ نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ماتحت ہر پولیس اہلکار میں وفاقی دارالحکومت کی حفاظت کی ذ مہ داری کے حوالے سے چوکنا رہنے کا احساس بیدار کریں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سریع الحرکت فورس کو جڑواں شہروں کی اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس بالخصوص رینجرز کے چوبیس گھنٹے گشت کے لیے معاونت کو یقینی بنانا چاہیے۔ اعلامیے کے مطابق ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز نے وزیر داخلہ کو آگاہ کیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بات چیت کے بعد سکھ مظاہرین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کی اجازت دی تھی اور آخری لمحات میں جبکہ اسلام آباد پولیس کی توجہ پاکستان تحریک انصاف کی ریلی پر مرکوز تھی سکھ مظاہرین سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مظاہرے کی آڑ میں ریلی کو پارلیمنٹ کی طرف لے گئے۔دوسری طرف رات گئے 16 سکھوں کیخلاف پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔