اثاثہ

یہ ذہنی و قلبی طمانیت و آسودگی ہی ہے جو منتشر سوچوں کو غیر محسوس طریقے سے رنگدار خوبصورتیوں کے مترنم ماحول میں اس طرح لے جاتی ہے جہاں مثبت سوچ رکھنے والوں پر یہ حقیقت آشکار ہوتی چلی جاتی ہے کہ زندگی کو بغیر Error کیسے اور کیونکر خوشی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے؟ زندگی میں خوشی کا حصول صرف اس بات پر منحصر نہیں کہ آپ خواب کتنے مثبت دیکھتے ہیں!!! بلکہ اس پر ہے کہ ان خوابوں کی تعبیر کیلئے جتن کتنے کرتے ہیں ہمارے تئیں خوشی کا حصول فقط دوسرے کیلئے خوشیوں کی جگہ بنانے اور اسے قائم رکھتے ہوئے انہیں خوشی کا لمحہ مہیا کرنے کا مرہون ہے۔ ذات کے ساتھ جڑے اغراض و مفادات کے حریص بے لگام گھوڑے کو قناعت، صبرو تحمل، درگزر اور برداشت کی ایک ہی کھڈی پر چڑھاتے ہوئے خواہشوں کی آلودہ عینک اپنی آنکھوں سے اتارنا ہی اصل بہادری اور احترام حسن آدمیت ہے۔ میانہ روی کے ساتھ مساوی اصولوں کی پاسداری کا سفر کٹھن ضرور ہے محال نہیں فقط اک بار خود کو مائل کرنا پڑتا ہے اور یہی ’’مائل کرنا‘‘ دراصل معاشرتی تربیت و ترویج کا اولین درس ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی نٹ کھٹ بچہ کھلونوں کی دوکان پر بندوق لینے کی ضد کر بیٹھے اور اس کھلونے کے حصول کیلئے ایڑیاں تک رگڑتے ہوئے اک ہنگامہ برپا کر دے۔ ہو سکتا ہے ان بے قابو لمحوں میں ماں باپ اسے سمجھانے سے عاجز آ جائیں لیکن ہو سکتا ہے آپا کی نرم خوئی اسے مائل کر ہی دے اور وہ بندوق کی جگہ اونچی اڑان والے جہاز پر اکتفا کرے۔ ایسی اونچی اڑان والا جہاز جو اس کی سوچوں، خیالوں اور چاہتوں کو بھی کھلی فضائوں کے لامتناہی سلسلوں سے روشناس کروا ڈالے۔ جب وہ ہوائوں کے دوش پر بادلوں کے رتھ پر خود کو محسوس کرے تو ہو سکتا ہے اس لمحے ذہین زاویے سے اسے کیڑے مکوڑوں کی مانند محسوس ہوں اور ان انسانوں کیلئے وہ اپنے رب سے محبتوں کی بارشیں مانگے۔ فضائوں سے نیچے دیکھتے ہوئے اور سوچ کی بلند ترین انتہائوں پر پہنچے سب برابر نظر آتا ہے اگر چہ ہر کسی کو برابر رکھنا رب کائنات کو بھی مرعوب نہیں!!! اس میں کوئی مغالطہ نہیں کہ انسانی اقدار اور معاشرتی تفریق کی جو خلیج زمین پر چلتے پھرتے نظر آتی ہے اوپر سے دیکھیں تو وہ بھی (ہیولوں) کی طرح آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ آپس میں گڈمڈ ہونے یا اک دوجے میں تحلیل ہونے کے لمحات ہی کو شعور ادراک سے قیمتی اثاثہ بنایا جا سکتا ہے۔ حصول آشتی کو ایک مثبت رویئے کا جنم ہی درکار ہوتا ہے جس میں مجموعی معاشرتی سوچ کو یکجا کرتے ہوئے اسکی رگوں کو فاسد مادوں سے پاک کرنا اصل کرافٹنگ ہے۔ درست کرافٹنگ کیلئے نظر کازاویہ اور طرز عمل کی درستی ہی حقیقی پیمانہ ہے۔ حاصل آسانیوں سے نبھا اور لاحاصل آسائشوں سے انتباہ، قومی تشخص و کردار کی اساس ہے۔ رب تعالی کی بے انتہا نوازشوں میں سے بلاشبہ یہ عطاء بھی کم کم ممالک کو نصیب ہے جو ریاست پاکستان کے حصے میں ہے کہ یہاں نوجوان نسل کسی بھی صنعت و زراعت سے کہیں زیادہ ہے جو بیش قیمت اثاثے سے کم نہیں لیکن جس طرح ہیرے کو تراشنے کبلئے جوہری کی نگاہ درکار ہے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت تہذیب و اقدار کا پیرہن زیب تن کر کے ہی اس نوجوان نسل کو ہم فخریہ طور پر کہیں پیش کر سکتے ہیں ورنہ غیر تربیت یافتہ جہالت سے نبرد سلیقے سے عاری نسل تو افراتفری، احتجاج، ہنگامہ آرائی اور اشتعال کے سوا کچھ نہیں۔ درختوں کی شاخیں کاٹ کر ہریالی کی امید رکھنے والوں کو محرومی انتشار کی جڑوں کو تلف کرنا ہو گا ورنہ محرومی و مایوسی جس اشتعال کو جنم دیتی ہے وہ اندھا ہوتا ہے اور اسی اندھے اشتعال کے ہمارے اثاثے اجاڑ دیئے ہیں۔ اسی طرح آنگن میں درخت لگاتے ہوئے بھی چھائوں دار درختوں ہی کی کلمیں بوئی جاتی ہیں تو پھر اپنی قوم کی آبیاری کیلئے ہم اسکی بنیادیں کیسے کھوکھلی کرتے چلے جا رہے ہیں کہ قابل تقلید و فخر سماجی معاشرتی ماحولیاتی اقدار کے تن میں نئی روح پھونکنے کیلئے جہالت، غربت نا انصافی اور بے روزگاری جیسے ناسور اپنی نسلوں کے وجود سے الگ کرنے کو تیار ہی نہیں!!! شدتوں اور انتہائوں کی آگ میں جھونک کر ہم خود کو کس طرح بے قصور اور بری الزمہ قرار دینے میں تمام تر قوتیں صرف کرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ جب زخم کینسر بن جائے تو اسے کاٹ کر الگ کرنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن کوئی بھی ماہر سرجن ایسے وقت میں نشتر زنی کی بجائے نیک راست پیوند کاری کر کے زخموں کو جلد اچھا بھی تو کر سکتا ہے؟ اس وقت حکومت کو ماہر سرجن ہی کا کام کرنا ہو گا کہ وہ ریاستی اداروں کے آپسی روابط و وابستگیوں کے ساتھ ساتھ بین الصوبائی ہم آہنگی اور درست سمتوں کا تعین کرے کیونکہ جس ریاست میں دہشت گردوں کو گرفتار کر کے چھوڑ دیا جائے بغیر محکماتی ’’این او سی‘‘ ابلاغی ادارے قائم ہی نہ ہو جائیں بلکہ ایک ’’ایمپائر‘‘ بنتے چلے جائیں۔ نہ صرف قومی تشخص بلکہ ہماری تعلیمی قدرو پیمانے بھی بری طرح مجروح کر دیئے جائیں ایسے کیس صرف سپریم کورٹ کے انصاف پر نگاہ جانا ایک بیمار استحصالی سیاسی پارلیمنٹ کا پتہ دیتی ہے۔ کم سے کم ہمارے لئے ہر سیاسی معاشرتی ذلالت کی طرف آرمی کی جانب سے دبنگ اظہار پاک فوج کو عسکری ذمہ داریوں کے ساتھ حکومتی ذمہ داریوں کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے اگر حکومتی اہل کار اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرتے تو ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اکبر کو کبھی بھی اس سنگینی کی طرف توجہ نہ دلانی پڑتی کہ کراچی میں امن و امان کیلئے پچھلے پانچ برسوں کے دوران جاری کئے گئے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنا ناگزیر ہے۔ جس طرح مدارس سے لے کر تعلیمی اداروں تک میں شدت آمیز سوچ کی ترویج ہو رہی ہے وہ معاشرے میں انسانی حقوق کی پائمالی کا سبب بن رہی ہے ۔ فی الحال اپنے ترقیاتی اوورھیڈ برج انڈر پاس پراجیکٹس کی جگہ پڑھی لکھی اور ہنر مند نوجوان نسل سے احساس محرومی نکال کر اسے پھر سے اور اعتماد کی قوت دینے کے ساتھ اس کیلئے رزق روٹی کمانے کی جائز شاہراہ عام کرے ورنہ ریاست پاکستان اپنا یہ یوتھ اثاثہ بھی لٹا بیٹھے گی!!!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...