کشمکش زندگی کا حصہ ہے وجود حیات کا ثبوت ہے لیکن سوال کشمکش کے مقاصد و فائدوں کا ہے۔ سانسوں کی ڈوری کی حفاظت سے لیکر حقوق زندگی کے تحفظ تک، امور خانہ داری سے لیکر کاروبار ریاست تک، اخلاقی اقدار کی پامالی کو روکنے سے لیکر فرائض سے بھاگنے والوں کو پکڑ تک الجھائو و کشمکش کا جواز موجود رہتاہے۔ کشمکش و الجھائوں کے آئیڈیاز عظیم ہوں تو جنگ بھی معتبر ہو جاتی ہے۔ آئیڈیاز و مقاصد میں شرہو تو محبتوں کے میٹھے سروں کی بجی بانسریاں کانوں میں رس نہیں زہر گھول دیتی ہیں۔ کشمکش اور محبت دونوں صورتوں کے فائدوں یہ کون گھات لگائے بیٹھا ہے کی سوجھ بوجھ ہی عقل سلیم کی پہچان ہے وگرنہ معاملات اسطرح تو ہرگز نہ ہوتے کہ جیسا کہ زمین کسی کی لیکن قبضہ کسی کا، شوہر کسی کا سہولتیں کسی کی، گھر کسی کا اختیار کسی کا، بچے و قربانیاں کسی کیں صلے کسی کے، ریاست کسی کی پالیسیاں کسی کی، محنت کسی کی پھل کسی کا اور جرم کسی کا سزا کسی کی، بظاہر سب معاملات یہ افادیت کے ہیں مگر اصل شر یہ نفس کا ہی ہے۔ جنگ و جدل اس نفس کی نہیں جنہیں شریف النفس کہا جائے بلکہ شر جنگ تو نفسی نفسی ثمہ نفسی کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی میں ہم میں سے بہت سے شریف النفس نفوس کو کسی نہ کسی لومڑیا لومڑی، ڈاکو یا لٹیرے یا نفسی نفسی کہنے والے لوگوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا۔ ایک بھائی اور اسکی فیملی سے دوسرے بھائی کی جائیداد کے حصے پہ خوب قبضہ جمایا، فائدے کھائے مگر اسی کا بھائی اپنے بھائیوں سے اپنا حصہ لینے کیلئے پریشان رہا۔ اپنی فیملی کو تنگی دینے والا، رو رو کے گزارے کرنے والا، محنتوں سے پورا نہ پڑنے کی دہائی دیتے رہنے والے اس بھائی کے ساتھ کسی کی ہمدردی نہ ہوئی اور یوں تھیوری آف ہڑپ ہڑپ کامیابی سے چلی، کل جب میری ملاقات ساجدہ سے ہوئی تو وہ 12 سال قبل کی طرح آج بھی لمبا چوڑا سسرال، بھلا اچھا شوہر و بال بچوں کے ہوتے ہوئے اجڑی سی اور خود سے بچھڑی سی ملی۔ شوہر کی تمام کرنیوں کے باوجود با کردار، وفا دار و ذمہ دار ہی رہی۔ زمینیں جائیدادیں، بہترین تنخواہیں، دکانوں کے کرائے، زرعی اجناس سب کچھ ہے مگر بیگم صاحبہ کو کچھ نہیں ملنا کہ وہ اپنا آپ کریں بلکہ صاحب کو مصیبت زدہ و ضرورت مند سمجھتے ہوئے انہیں تمام خرچے ادا کریں۔ صاحب حیثیت مرد کی اپنی زوج کے رشتے میں اس کاروباری ذہانت نے ساجدہ کو تو رلاو بھرا دیا ہی ہے۔ بلکہ زوجین کے رشتے کی چولہیں بھی ہلاکر رکھ دی ہیں کہ مشرقی پاکستانی عورت تو اصولی طور پر مرد کو اپنا ذمہ دار سمجھتی رہے گی کہ اس میں مرد کی بڑائی اور قوام ہونے کی حیثیت ہے جو شرعی ضابطے کی بات ہے ہاں عورت کا پیسہ اس کے حسب منشاء ہے جس پر کسی کا زور و دبدبہ دکھانا ظلم و زیادتی ہے۔ من بھاتی تفریح، پر لطف و لذیذ کھانوں شوہر کے وقت اور ساتھ کمپنی پہ حق تو اصولاً و شرعاً اہلیہ کا ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ حق دیا کسی اور کو جاتا ہے۔ کسی کے شوہر پہ کسی اور کی ڈاکہ زنی اور کسی کے گھر پہ کسی اور کی حاکمیت گناہ کبیرہ و ظلم عظیم ہے جسکا نوٹس پورے معاشرے کو لینا چاہئے۔ ڈومیسٹک فرنٹ پہ اپنے گھر بار اوربچوں کے تحفظ کا جہاد کرنے والی گھر والیوں کو باہر والیوں کی وارداتوں سے بچانا چاہئے گو کہ وارداتیں کثیرالتعداد، مکار و منصوبہ ساز ہوتے ہیں۔ پھر بھی سچائی و اچھائی میں برکت ہوتی ہے۔ میرے محلے میں تیسری گلی ہے وہاں ایک گھر میں 68 سالہ بیوہ ماں رہتی ہے۔ کہتی ہے ساری عمر گھر بار بال بچوں کی خدمت میں سوچنے کا موقع ہی نہ ملا کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ آج بچے اپنے مقام تو پاگئے مگر میرے حالات ہیں کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ آج میرے ساتھ شوگر اور جوڑوں کا درد ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ ماں جی کی زندگی کو آج محنت کا پھل ملنا تھا جن بچوں پہ راتوں کی نیندیں قربان کی تھیں اسوقت ان بچوں کو اپنی بوڑھی ماں کا سہار بننا تھا۔ مگر یہ اپنے بچے ہی ہرجائی نکلے۔ اپنی ماں کو نوکروں کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔ اپنوں کی بے رحمی و بے حسی کا گھائو بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔ 19 مئی نوائے وقت کے سپیشل ایڈیشن میں بلال تبسم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ممتاز نامی ایک باپ نے اپنی دوسری شادی میں رکاوٹ بننے والی بیوی کو تشدد کر کے جھوٹے الزامات لگا کر گھر سے نکال دیا اور پھر سات سالہ وقاص، 12 سالہ ماریہ اور آٹھ سالہ منزہ کو نہر میں دھکا دیکر مارنے کا سنگین و سفاک اقدام کیا۔ محلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ممتاز کے دل میں کھوٹ تھی اسلئے وہ اپنی خدمت گزار بیوی کو برا بنائے رکھتا تھا اور اسے ختم کرنے یا گھر سے نکالنے کیلئے گھر میں فساد برپا رکھتا تھا۔ گھروں کی بربادیوں کی ایسی داستانیں گھر والوں کے اپنے ہی بناتے ہیں۔
دیکھئے یہ ارض وطن پاکستان میرا گھر ہے۔ یہی آپکا گھر ہے۔ مذہب، رنگ، نسل زبان سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم اس کے مقیم ہیں اور ہم ہی اپنے اس پیارے گھر کے محافظ ہیں۔ ہم سنتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں جیسا کے’’کالا باغ ڈیم‘‘ کی تعمیر رکوانے پہ سالانہ اربوں روپیہ خرچ کر رہا ہے اور ہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’را‘‘ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان جو میرا اور آپ کا گھر ہے تو دشمنوں کو اس کے اندر گھس جانے کے مواقع و راستے آخر کون دے رہا ہے؟ ایک رپورٹ کے مطابق ’’را‘‘ نے 1983ء سے لیکر 1992ء تک پاکستان کے اندر 35000 ایجنٹس داخل کئے۔ سوال یہ ہے کہ ’’را‘‘ کے ایجنٹس کے میزبان کون تھے؟ کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دشمن کو اپنے گھر میں مخالف کارروائیوں کیلئے آسانیوں و سہولتیں بہم پہنچائے۔ یہی تو ہر جائی پن، غداری و بربادی ہے؟ وطن کا ہر بچہ وطن کا سپاہی سہی، ہر جواں میری سرزمین پاک کے استحکام، و بقاء کا امانت دار سہی، ہر شہری بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب و فرقہ وطن عزیز پاک دھرتی کا نگہبان سہی مگر امر افسوس یہی ہے کہ ہمارے گھر کے چراغ سے ہی ہمارے گھر کو آگ لگ جاتی ہے۔ یہی نفسی نفسی ہے۔ یہی قیادت خیز افراتفری ہے۔ یہ سرزمین وطن سے جو ہمارا پاکستانیت کا مقدس رشتہ ہے یہ اس رشتے کا قتل ہے، یہ گناہ کبیرہ ہے۔ یہ وطن کی مٹی میں گوندھی لاکھوں فرزندان توحید کی قربانیوں کے ساتھ زیادتی ہے، یہ ظلم ہے۔ اپنے گھرکی وفاداری تو کتے بلے بھی کرتے ہیں، انسان ہی ہے کہ جس کے دماغ اور دل پہ جب لالچ، شیطانیت اور دنیاوی حرص چھا جاتی ہے تو اپنے ہی گھر کو تباہ و برباد کرتے وقت حیاء نہیں کرتا، غیرت کے رکھوالوں سے غیرت کا پردہ تار تار ہونے سے پہلے ہی ان کی پکڑ کرنا ضروری ہے۔
یہ وطن جو میرا گھر ہے، اس وطن کو لٹیروں، مخبروں، غداروں سے پاک کردو، یہ نسل تو پکار رہی ہے کہ میرے بھی گھر کے چراغوں پہ نظررکھو دشمن تو میرے سپاہی کے خوف سے مرجائے گا۔ ذرا میرے بابا کو سمجھا دو۔ میرے بقائے وطن، میرا استحکام وطن، میرا امن وطن، میرے وسائل وطن کو غیر کے ہاتھ دینے سے بچالو۔