حب الوطنی اور ’آزادی رائے‘ کے متنازعہ تعریف کے تقاضہ اگر مختلف ہوں تو بھی فیصلہ حب الوطنی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کرنا چاہئے۔ کیونکہ آپ کی، میری اور ’رائے کی آزادی‘ کی ضامن ہماری آزاد ریاست ہے اس لئے اس ریاست اور اس کے ستونوں کا احترام لازم ہے۔ MQM کی ہنگامی پریس کانفرنس میں موقف سامنے آیا کہ الطاف حسین نے فوج یا ریاست کے متعلق کوئی غلط بات نہیں کی لیکن ان کے خطاب پر پابندی لگا دی حیران ہوں جس بیان پر اتنی لے دے ہوئی کروڑوں پاکستانیوں کا دل دکھا۔ قائد محترم الطاف حسین صاحب نے معافی مانگی۔ متحدہ کے اراکین کو لگتا ہے وہ غلط بات ہی نہیں برطانیہ کا شہری کیا لندن میں فاک لینڈ وار یا جنگ عظیم اول یا دوئم میں دشمن کے ہاتھوں مارے جانے یا گرفتار ہونے والوں کے لئے وہ الفاظ اور لب و لہجہ استعمال کر سکتا ہے جو افواج پاکستان کے لئے کیا؟ یہ درست ہے کہ اس وطن سے وفاداری کسی ایک پیشہ ذات، مہاجر یا مقامی سے منسوب نہیں کی جا سکتی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اپنی تاریخ کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ، غیر متعصب، ایماندارانہ تجزیہ حال کو سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن تذلیل آمیز انداز سے ماضی کے اوراق پلٹنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو لوگ اپنی قربانیوں سے آزادی کی لو کو روشن رکھے ہوئے ہیں ان کا احترام ہر پاکستانی پر لازم۔ 1947ء سے لے کر آج تک اس وطن کے لئے جن اہلکاروں نے جان دی یا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں قابل صد احترام۔ ہار، جیت، سیاسی و عسکری قیادت کے صحیح اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی۔ مرنے والے خواہ لال مسجد کے سامنے شہید ہوئے یا 65 کی جنگ میں انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کا حق ادا کیا۔ 93 ہزار جنگی قیدی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سب فوجی نہیں تھے لیکن یہ سب پاکستانی تھے لیکن کیا ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ اس جوان، اس کپتان اس میجر کا تھا جس نے بھارتی کیمپوں میں زندگی کے قیمتی دن گزارے جن کے خواب بکھر گئے یا قیادت کا؟ فتح اور شکست پاکستان کی تھی۔ اسے صرف فوجیوں سے کیوں منسوب کیا جائے۔اتنے دن گزرنے کے باوجود عوامی رہنما الطاف حسین کی تقریر کے لفظ تکلیف دے رہے ہیں۔ اس لئے یہ لکھ رہی ہوں تقریر سنتے وقت مجھے یوم شہدا کے موقع پر ایک ٹی وی پروگرام میں ایک بچے کا انٹرویو یاد آ رہا تھا جو کہہ رہا تھا میں نے ابو کی شہادت کی خبر سنی تو نفل ادا کئے۔ دل کانپ گیا بے ساختہ اس بچے کے لئے دل سے دعا نکلی کاش خدا اس بچے کی زندگی میں وہ وقت نہ لائے جب اسے رونے کے لئے باپ کے کندھے کی ضرورت محسوس ہو اس کے ماں باپ کی عظمت کو سلام کرنے کو جی چاہا جنہوں نے اس بچے کو وطن سے محبت کا درس ازبر کروایا۔ سوچ رہی تھی اگر اس بچے نے یا وہ لوگ جو جنگی قیدی رہے یا ان کے عزیز و اقارب نے اگر یہ تقریر سنی ہو گی تو ان کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ سیاسی غلطیوں، قیادت کے غلط فیصلوں کو حْب الوطنی کے جذبوں کی توہین کا جواز نہیں بننا چاہئے۔ پھر ایسے وقت میں جب اس وطن کی بقا فوجیوں سے قربانیوں کی متقاضی ہو ہماری سلامتی اور اس ملک میں امن کے لئے ضرب عضب میں مصروف ہو۔ فوج نے جب ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قدم اٹھایا قوم جانتی تھی پکنک پر نہیں جا رہی۔ اس فیصلے کا مطلب شہادتیں فوجی گھرانوں میں بچے شفقت پدری سے محروم ……۔ اور بے کل بوڑھے والدین ہوں گے۔ یہ فیصلہ اس مٹی سے وفاداری نبھانے کے لئے آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے کیا گیا۔ یہ درست حب الوطنی صرف فوج کی میراث نہیں لیکن تنقید کرتے وقت لب و لہجہ اور الفاظ کا مناسب چنائو سویلینز کی حب الوطنی کا تقاضا ہے وگرنہ ایسا نہ ہو اس وطن کے لئے جان دینے سے پہلے لوگ سوچیں اگر ایسا ہوا تو پھر لٹ پٹ کر پاکستان آنے والے مہاجر جو لندن میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں کیا کریں گے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ فوجی اپنی جان اس ملک پر بغیر تذبذب کے نچھاور کر رہے ہیں۔ وہی جان جسے بچانے کے لئے کوئی لندن جاتا ہے کوئی دبئی اور کوئی سعودی عرب۔اس بات میں بھی وزن ہے کہ پابندی صرف الطاف حسین پر کیوں؟ میرے خیال میں اس قسم کی گفتگو خواہ کوئی کرے اس پر پابندی لگنی چاہئے۔ پاکستان میں تحریر و تقریر کے نمونے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں مگر پورے پاکستان کو ہائیڈ پارک سمجھتے ہیں۔ ہائیڈ پارک جو 350 ایکڑ پر پھیلا لندن کے 8 رائل پارکس میں سے ایک ہے اور اس کی پہچان اس کا جنوب مشرقی کونہ ہے جو اسپکرز کانر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ روایتاً یہ پارک اجتماعی احتجاج کے مظاہروں سے منسوب ہے کسی تحریکوں کے آغاز کا گواہ اور جانے پہچانے لوگ جیسے کارل مارکس، ولیم مورس، لینن اور جارج اور ویل جیسے لوگ اسے اپنی بات کہنے اور لوگوں کی سننے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہاں آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں جو چاہیں کہہ سکتے ہیں لیکن حقیقتاً ایسا نہیں یہاں پر بھی بات کرتے وقت یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ آپ آزادی اظہار کے قوانین کی حدیں پار نہ کریں یہ توقع کی جاتی ہے کہ نفرت انگیز گفتگو نہ کی جائے اور ایسی تقریر سے گریز کیا جائے جو دوسروں کی دلآزاری کا سبب بنے مگر لگتا ہے ہم بحیثیت قوم محبت اور نفرت کرنے کے آداب سے ناآشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ نومبر میں آرڈیننس ڈے کے موقع پر آسٹریلین ہائی کمشن گھانا کی ایک پوسٹ نظر سے گزری Armistce day کے حوالے سے یادگاری تقریب کے موقع پر دو آسٹریلوی فوجی سارجنٹ مارون مارشل اور کیٹن فریڈڈ … جو گھانا میں مدفون ہیں کی قبروں پر آسٹریلین سکول کے بچوں کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات رکھے۔ کاش ہم بھی اپنے بچوں کو اپنی تاریخ کا یہ رخ دکھا سکیں۔ کاش تاریخ یاد رکھنے کا یہ طریقہ بھی ہم سیکھ جائیں۔ کیا ہمارے سکول کے بچوں کو ان لوگوں کے نام بھی یاد ہیں جنہیں نشان حیدر ملا؟ کیا وہ جانتے ہیں وہ کہاں مدفون ہیں۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔ شکایتیں اپنی جگہ جان دینے والوں کے لئے … تو بنتی ہے۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
May 24, 2015