سعودی صوبہ قطیف میں بھیانک دہشت گردی‘ 21 نمازی جاں بحق 70 زخمی
سعودی عرب کے مشرقی صوبہ قطیف کی شیعہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش حملے میں 21 نمازی جاں بحق اور 70 زخمی ہوگئے۔ سعودی میڈیا کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ خودکش دھماکہ قطیف کے گائوں قدیح میں واقع امام علی مسجد میں ہوا جہاں خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کے دوران خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس وقت مسجد میں 150 نمازی موجود تھے۔وزیر داخلہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خودکش حملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ رائٹر کے مطابق اسلامک سٹیٹ (داعش) نے ٹوئٹر پر جاری پیغام کے ذریعے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جبکہ لبنانی حزب اللہ نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی ذمہ داری سعودی حکام پر ڈالی ہے۔
سعودی عرب میں شیعہ آبادی زیادہ تر دو اضلاع قطیف اور الحسا میں ہے۔ ملک میں شیعہ برادری کل آبادی کے 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہے۔ سعودی عرب کا مشرقی صوبہ قطیف تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ قطیف کی شیعہ آبادی کے لوگ حکومت کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔2011 میں شیعہ آبادی نے حکومت مخالف احتجاج شروع کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں رائج بادشاہت ختم کر کے وہاں جمہوری اصلاحات نافذ کی جائیں۔ اس احتجاج میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کئی افراد کو بغاوت اور فسادات کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ سعودی عرب میں یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب سعودی عرب نے ہمسایہ ملک یمن میں حوثی باغیوں کیخلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے مزید علاقوں پر قبضہ کیا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق حوثی باغی سعودی سرحد کے قریب میزائل‘ راکٹ اور دیگر اسلحہ جمع کررہے ہیں‘ حوثیوں کی طرف سے سعودی عرب میں سرحد کے قریب کارروائیوں میں بھی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ گزشتہ روز نجران پر راکٹ حملے میں ایک سعودی شہری جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ داعش نے عراق کے اہم شہر رمادی پر قبضہ کرلیا ہے جسے واگزار کرانے کیلئے عراقی فوج نے تین حملے کئے مگر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ رمادی شہر داعش سے واگزار کرانے کیلئے امریکہ نے ایک ہزار ٹینک بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے داعش کے طاقتور ہونے کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق داعش نے شیعہ کمیونٹی کیخلاف کارروائی کیلئے سعودی حکومت پر زور دیا تھا۔ سعودی حکومت نے شورش دبانے کی حد تک تو کارروائی کی مگر داعش کے مطالبے پر اپنے شہریوں کو انتقام کا نشانہ بنانے سے انکار کر دیا جس کے بعد دولت اسلامیہ سعودی مفادات کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ عراقی حکومت کی کمزور رٹ سے دولت اسلامیہ فائدہ اٹھا کر اپنے مقبوضات بڑھا رہی ہے اور سعودی عرب میں آسانی سے کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
آج سعودی عرب حوثی باغیوں پر حملوں سے قبل کی نسبت زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حوثی باغی سعودی عرب کیخلاف کوئی پلاننگ کررہے ہوں‘ اسکی راہ خود سعودی عرب نے ایک خودمختار ملک پر حملہ کرکے ہموار کی۔ شیعہ اکثریتی آبادی کے علاقوں میں پہلے ہی بے چینی تھی‘ حوثیوں پر حملوں کے بعد اس میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ داعش ایسی دہشت گرد تنظیمیں اپنے اور کسی اور کے کئے دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کرلیتی ہیں۔ قطیف میں کی گئی دہشت گردی میں کوئی تیسری قوت بھی ملوث ہو سکتی ہے۔ سعودی حکومت اور اسکی ایجنسیاں یقیناً ہر پہلو سے تحقیق کررہی ہونگی۔ تحقیقات سے جو بھی نتیجہ سامنے آتا ہے‘ اسکے مطابق سعودی حکومت ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات تو بلاشبہ کریگی‘ مگر مملکت سعودی عرب میں دہشت گردی کے در آنے کے امکانات کو سرے سے ختم کرنے کی پلاننگ کی جانی چاہیے۔ سعودی عرب نے دس عرب ممالک کو ساتھ ملا کر یمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلمانوں کی آپس میں لڑائیوں کو عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔ اگر یہ واقعی سازش ہے تو ایسی سازشوں کو کیا سازشی عناصر کا آلہ کار بن کر ختم کیا جاتا ہے؟ کیا آپس میں دست و گریباں ہونیوالے مسلم ممالک کے حکمرانوں کی عقل کا خانہ بالکل خالی ہے؟ ان کو اپنے نفع و نقصان میں کوئی امتیاز نہیں ہے؟ غیروں کی سازشوں کی بات کرنے کے بجائے‘ یہ حکمران اپنے گریبان میں جھانکیں۔ تھوڑے سے مفاد‘ معمولی اختلاف اور بعض اوقات محض غلط فہمی کی بناء پر دوسرے ملک پر چڑھائی کردی جاتی ہے۔ عراق ایران جنگ‘ کویت پر عراقی قبضہ اور اب یمن پر حملہ اسکی واضح مثالیں ہیں۔ اس سے امہ کا تشخص مجروح ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلامی ممالک مذاق بنے ہوئے ہیں۔ بات ہم غیرمسلموں کی سازشوں کی کرتے ہیں جبکہ فرقہ واریت کی فنڈنگ میں بڑے اسلامی ممالک آگے آگے ہیں۔ ایسی فنڈنگ نے پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔
سعودی خاندان کو اللہ تعالیٰ نے حرمین کی نگہبانی کی سعادت عنایت فرمائی ہے۔ حجاز مقدس ہر مسلمان کی عقیدت و احترام کا مرکز ہے‘ اس حوالے سے مسلم امہ کے اتحاد میں سعودی حکمرانوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ مگر خانہ کعبہ کے عزت مآب امام جب مسلمانوں کے کسی طبقے‘ حلقے یا گروہ کو خوارج قرار دینگے تو انکی جانب سے اس کا ردعمل بھی سامنے آئیگا۔ ایران بلاشبہ حوثیوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ سعودی حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقدامات کے باعث عالمی سطح پر شیعہ سنی کی تفریق نظر ہی نہیں آنی چاہیے تھی۔ سعودی عرب آج بھی ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو معاملات خوش اسلوبی سے طے پا سکتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ ایران اس کا مثبت جواب نہ دے۔ بالفرض ایران پھر بھی مبینہ طور پر سعودی عرب کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ پوری اسلامی دنیا سے کٹ جائیگا۔ معروضی حالات میں وہ مسلم امہ سے تنہائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
حوثی قیادت باربار جنگ بندی پر زور دے رہی ہے‘ عبدالمالک حوثی نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب کو مذاکرات کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ رمضان المبارک سر پر ہے‘ اسکے ساتھ حج سیزن شروع ہو جائیگا۔ ان اہم ایام میں سعودی عرب شورش اور بدامنی کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔ سعودی عرب کا مکمل طور پر پرامن ہونا ضروری ہے جس کی اولین ذمہ داری سعودی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ یمن جنگ کا خاتمہ اس مقصد کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب کا قابل تحسین مؤقف رہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو داعش کی خواہش پر انتقام کا نشانہ نہیں بنائے گا۔ داعش ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلم امہ کیلئے خطرہ بن رہی ہے۔ اسکی جڑیں پاکستان تک پھیل چکی ہیں۔ اب اس نے اپنے دعوے کے مطابق سعودی عرب کو بھی ٹارگٹ کیا ہے۔ مسلم امہ کو داعش کیخلاف متحد ہونا ہوگا اور سعودی عرب کو ممکنہ دہشت گردی سے بچانے کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پہلے اقدام کے طور پر او آئی سی سعودی عرب اور یمن کے درمیان فوری جنگ بندی کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے ترکی اور پاکستان کو آگے آنا ہوگا جن کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔