مہنگائی میں خاصی حد تک کمی، شرح سود8 سے کم ہو کر 7 فیصد:42 سال کی کم ترین سطح پ پر آ گئی: سٹیٹ بنک

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سٹیٹ بنک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں ایک فیصد کم (100 بیسز پوائنٹس) کی کمی کردی ہے۔ گزشتہ 42 سال میں اب شرح سود سب سے کم سطح پر ہوگی۔ شرح سود گھٹ کر 7 فیصد ہوگئی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان گورنر سٹیٹ بنک اشرف محمود وتھرا نے بنکس بورڈ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک ریاض الدین، ڈائریکٹرمحمدعلی ملک اور دوسرے افسر بھی موجود تھے۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ 100بیسز پوائنٹس کی کمی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سے کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور سرمایہ کاری پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ بزنس کی لاگت میں کمی آئے گی۔ رواں مالی سال میں 4.24 فیصد گروتھ کے بارے میں حکومت پہلے ہی بتا چکی ہے۔ طویل المیعاد قرضوں کا حجم بڑھا ہے، ٹریڈ فنانسنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بنک نے ملکی معاشی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے شرح سود میں کمی کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں انہوں نے کہاکہ سال کے 15 کے آخر میںمعاشی حالات سال کے آغاز کے مقابلے میںمزید بہتر ہوگئے ہیں، جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوگیا ہے، اوسط سالانہ مہنگائی ہدف سے خاصی کم ہے، حقیقی جی ڈی پی نمو تھوڑی بڑھی ہے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ جاری ہے۔ ان تمام حالات کی عکاسی بین الاقوامی درجہ بندی ایجنسیوں کی جانب سے منظر نامے کے درجے میں اضافے کے حالیہ اقدام سے ہوتی ہے جس سے سرمایہ کاروںکا اعتماد مزید بڑھ گیا۔ ملکی پالیسیوں اور سازگار بیرونی حالات کی بنا پر حاصل ہونے والے معاشی استحکام کی وجہ سے اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملا ہے جو معیشت کو پائیدار نمو کے راستے پر گامزن کر دے گا۔ تیل کی قیمتوںکے یکدم گھٹنے کی وجہ سے درآمدات میں کمی اور ترسیلات زر کی مضبوط نمو کی بنا پر جولائی سے اپریل تک کے مالی سال 15کے دوران بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ 1.4ارب ڈالر ہوگیا جو گذشتہ سال کی اسی مدت کے خسارے کا قریباً نصف ہے۔ مجموعی طور پر اس کی وجہ سے ذخائر بڑھانے کی کوششوںکو سہارا ملا ہے اور سٹیٹ بنک کے خالص ذخائر جو 30جون 2014کو 9.1ارب ڈالر تھے، 15مئی 2015کو بڑھ کر 12.5ارب ڈالر ہوگئے، ان میںمزید اضافہ متوقع ہے جس کا سبب تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کے کم رہنے کا امکان، آئی ایم ایف پروگرام کا کامیابی سے جاری رہنا اور سرکاری بیرونی رقوم کی متوقع آمد ہے۔ بیرونی نجی رقوم میںاضافہ اس منظر نامے کو مزید مستحکم کر سکتا ہے زرِمبادلہ میںپائیداری کو برقرار رکھ سکتا ہے۔رواں مالی سال میںمہنگائی میںکمی کا رجحان جاری ہے، سال بہ سال گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت جون 2014 میں 8.2فیصدسے گھٹ کر اپریل 2015میں 2.1فیصد ہوگئی۔ رواںمالی سال کے دوران گرانی میںکمی وسیع البنیاد رہی کیونکہ گرانی کے تمام عمومی اور تحتی پیمانوںمیںسست رفتاری دیکھی گئی۔ اس سال مہنگائی کو قابو میںرکھنے والے کلیدی عوامل میںاجناس کی کم عالمی قیمتیں، شرح مبادلہ کا استحکام، سٹیٹ بنک سے حکومتی قرضوںکا قابو میںرہنا، معتدل مجموعی طلب اور سٹیٹ بنک کا قبل ازیںمحتاط زری پالیسی موقف شامل ہیں۔ آئندہ گرانی کے کم سطح پر برقرار رہنے کی عکاسی مئی 2015کے آئی بی اے اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین سروے سے ہوتی ہے جس میںگرانی کی پست توقعات ظاہر کی گئی ہیں، تاہم تیل کی عالمی قیمتوں کے بارے میںغیر یقینی کیفیت اور توانائی کی ملکی قیمتوںمیںممکنہ ردوبدل مہنگائی کے اس منظر نامے کو درپیش بڑے خطرات ہیں۔ عبوری تخمینے کے مطابق حقیقی جی ڈی پی مالی سال 15میں 4.2فیصد بڑھ جائے گی جو مالی سال 14کے 4.0فیصد سے تھوڑی زیادہ ہے۔ توقع ہے کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کا عمل اور امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتِحال سرمایہ کاری بحال کرنے اور پیداوار بڑھانے میںمزید تحریک فراہم کرے گی۔ توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوںمیں مجوزہ سرمایہ کاری آنے سے نمو بتدریج بہتر ہوتی جائے گی۔ توقع ہے کہ نمو زیادہ رفتار سے بحال ہوگی۔ان معاشی پہلوؤں کے پیش نظر سٹیٹ بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے شرح سود کوریڈور کی بالائی شرح 100بیسس پوائنٹس گھٹا کر 8.0 فیصد سے 7.0فیصد کردیا ہے، بالائی شرح سے 50بیسس پوائنٹس نیچے ایک نیا ’ایس بی پی ٹارگٹ ریٹ‘ مقرر کیا گیا ہے اور سٹیٹ بنک اس بات کو یقینی بنائے گا کہ شبینہ ریٹ اس ٹارگٹ ریٹ کے قریب رہے۔ یہ سٹیٹ بینک کا اصل پالیسی ریٹ ہوگا۔ شرح سود کوریڈور کا عرض  250بیسس پوائنٹس سے 50کم کرکے 200بیسس پوائنٹس کردیا گیا ہے، زیریں ریٹ 5.0فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ سٹیٹبنک کے ڈائریکٹر محمدعلی ملک نے کہا کہ انٹرسٹ کوریڈور میں اس وقت سیلنگ ریٹ 8 فیصد تھا جس میں 100 بیسز پوائنٹ کی کمی کرکے 7 فیصد کردیا گیا ہے۔ فلور ریٹ 5.5 فیصد تھا جسے اب 5 فیصد کردیا گیا ہے۔ پالیسی ریٹ ان کے درمیان رہے گا جو ساڑھے 6 فیصد ہو گا جبکہ ’’ویڈتھ‘‘ 250 بیسز پوائنٹس تھی جو اب 200 کردی گئی ہے۔ سٹیٹ بنک جب بیسز پوائنٹس میں کمی کرتی ہے اسکا اثر مارکیٹ پر ضرور ہوتا ہے۔ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک ریاض ریاض الدین نے کہا کہ ’’کائبر‘‘ ریٹ سٹیٹ بینک کے ریٹس پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت 6 ماہ کا کائبر ریٹ 7.1فیصد ہے۔ نیشنل سیونگز سکیموں کی شرح منافع کے بارے میں حکومت پاکستان فیصلے کرتی ہے۔ شرح سود کم ہونے سے لارجر سکیل مینوفیکچرنگ کی پیداوار بڑھنے کا امکان ہے۔ قبل ازیں سٹیٹ بنک کے بورڈآف ڈائریکٹرزکا اجلاس ہوا۔ جس میں ڈسکائونٹ ریٹ میں 100 بیسسز پوائنٹس کمی کی منظوری دی گئی۔ گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹراشرف وتھرا نے کہا شرح سود میں کمی سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے بھی کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ کمی کا اطلاق 25 مئی سے ہوگا، فیصلے سے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ رواں مالی سال کے دوران طویل مدت کی سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھاگیا ہے، ترقی کی شرح بڑھے گی۔ کاروباری برادری نے کہا ہے کہ مرکزی بنک، کمرشل بنکوں کو ہدایت دے کہ وہ نجی شعبے کو زیادہ قرض دیں۔ فیصلے سے جہاں عوام کی جانب سے گھر اور کار کیلئے حاصل کئے گئے قرض پر سود کی شرح کم ہوگی، وہیں کھاتے داروں اور قومی بچت سکیم میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کا منافع بھی کم ہوگا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہاکہ فیصلے سے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اقتصادی ماہرین نے کہا ہے حکومت ایک سال تک شرح سود 7 فیصد برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو نجی شعبے کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ سٹیٹ بنک نے وزارت خزانہ کو تجویز دی ہے کہ وہ آنے والے بجٹ 2015-16ء میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 165 اے کو ختم کرے کیونکہ اس کے نفاذ سے ڈیپازیٹرز میں بے چینی اور پریشانی پھیل سکتی ہے جس سے پہلے سے کم بچت اور جی ڈی پی شرح مزید کم ہو سکتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مہنگائی کی شرح جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر8.2 فیصد تھی کم ہو کر صرف 2.1فیصد رہی ہے جس کی وجہ حکومت کا مرکزی بنک سے قرض کے حصول میں کمی اور مستحکم زرمبادلہ کی شرح ہے۔ سخت مالیاتی پالیسیوں نے بھی مہنگائی کو قابو میں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن