کسان، مورال اور عدلیہ

شیخ سعدی لکھتے ہیں: ’’ایران کا بادشاہ تھا جس نے کسانوں، کاریگروں پر بے پناہ ٹیکس لگا دیئے اور عوام پر جبر و تشدد کرتا تھا۔ ان مظالم اور بے انصافیوں سے تنگ آکر بہت سے لوگ دوسرے ممالک چلے گئے اور بادشاہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ جب بڑی تعداد میں کسان اور کاریگر ہجرت کرگئے تو اس ملک کے ذرائع آمدنی اور وسائل کم ہوگئے۔ بادشاہ کا خزانہ کم ہونے لگا اور طاقتور دشمنوں نے سرحدوں پر حملے شروع کردیئے۔‘‘ فرانس، روس، چین، ایران زندہ مثالیں ہیں جہاں امرائ، حکمرانوں اور نوکرشاہی نے مزدوروں، کسانوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ حکمرانوں نے فرعونوں کے روپ دھار لئے تھے۔ راشیوں نے عوام کی روٹی چھین لی تھی۔ کسانوں پر لگانوں اور ٹیکسوں کے اتنے بوجھ ڈال دیئے گئے کہ وہ معاشرے میں حیوانوں سے بدتر اوقات گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ انصاف صاحبِ ثروت امراء کا غلام بن کر رہ گیا۔ آج پاکستانی کسان کی حالت زار بالخصوص اور عوام جس دردناک کیفیت سے گزر رہے ہیں، وہ دیکھ کر شیخ سعدی کے قصوں کی یاد آتی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور یوٹیلیٹی بلوں کی بھرمار نے عوام کو بھوک و ننگ کا شکار کردیا۔ غریب لوگ غربت و افلاس سے تنگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ کسان پاکستان بننے کے بعد جمہوریت اور آمریت کی چکی کے دو پاٹوں میں اتنا پسے کہ دیہی زندگی اسے سٹون ایج کی طرف دھکیلتی لے گئی۔ مارشل لائی حکام، امپورٹڈ وزیراعظموں، تاجر اور صنعتکار، سیاست دانوں اور بیورکریٹس نے کسانوں کی غربت، بے علمی اور قیادت کی فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 21 اقسام کے لگان اور زرعی ٹیکس نافذ کرکے انہیں زندہ درگور کردیا ہے۔ ان زرعی ٹیکسوں کی تفصیل راقم کئی بار اپنی تحریروں میں دے چکا ہے۔ ن لیگ حکمرانوں نے 12½ ایکڑ اراضی کے مالک پر دوبارہ زرعی ٹیکس نافذ کردیا ہے۔ یہ ٹیکس مشرف دور میں معاف تھا۔ پنجاب میں سرکاری سروے کے مطابق 90% کسان ایسے ہیں جن کا زرعی رقبہ 12½ ایکڑ سے بھی کم ہے۔ آبیانہ ٹیکس 1958 سے آج تک 1500 گنا بڑھایا جا چکا ہے اور ہر سال آبیانہ ٹیکس 25% بڑھایا جارہا ہے۔ یہ ٹیکس صرف پنجاب کے کسانوں سے وصول ہوتا ہے۔ باقی صوبوں میں جہاں نہریں اور آبپاشی کا نظام ہے، وہاں آبیانہ ٹیکس نافذ نہیں ہے۔
پاکستان کے دیہات جہاں ملک کی 70% مخلوق آباد ہے، وہاں گھروں کی حالت دیکھیں جہاں ہمارے ارب پتی لیڈر اپنے کتے اور گھوڑے رکھنا بھی پسند نہ کریں۔ دیہاتی نوجوان شہروں کی طرف نقل مکانی کرگئے، غیر ممالک چلے گئے، نشہ کرنے لگے یا جرائم پیشہ بن گئے۔ 10 ایکڑ کا مالک کسان ریڑھی بانوں سے صاف پانی خرید کرپیتا ہے۔ بھینسوں کا دودھ ببچ کر گزارہ کرتا ہے اور بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے مزدوری کرواتا ہے۔ اس لئے کہ لگانوں، زرعی ٹیکسوں، کھادوں اور کرم کش دوائوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ عموماً اس کے بچے کھادی بوروں یا لنڈے بازار کے کپڑے پہنتے ہیں۔ پائوں سے ننگے پھرتے ہیں،کوئی ہوائی چپل پہن لے وہاں خوشحالی جھلکتی ہے۔ صدر ضیاء الحق کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے ٹھیک کہا تھا کہ محکمہ مال کے اہلکار و افسر 40 ارب روپیہ ہڑپ کر جاتے ہیں اور سابق وفاقی وزیر رحمان ملک نے کہا تھا ’’پاکستانیو ں کے 200 ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں پڑے ہیں۔ وزیر موصوف نے پاکستانی لیڈروں اور اعلیٰ افسروں کے دُبئی اور یورپی ممالک میں بینک اکائونٹس اور جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق کسان کا بیٹا تھا اور رحمن ملک کا تعلق بھی مزدور گھرانے سے ہے ۔ شاید اسی لئے انہیں کبھی اس فاقہ کش طبقے کی یاد آتی رہی ہے۔ سنا ہے آئندہ بجٹ میں پاکستان کا تاجر حکمران طبقہ کسانوں پر مزید زرعی ٹیکس نافذ کرنے کی پلاننگ کر رہا ہے۔ ایسے اوقات میں ایک خبر نے کسانوں کے حوصلے بلند کر دئیے۔ خبر نے دہقانون کا گرا ہوا مورال یکدم بلندیوں پر پہنچا دیا۔ خبر ہے ’’ہائیکورٹ نے کسانوں سے زرعی ٹیکس کی وصولی روک دی۔ پنجاب حکومت کو نوٹس’’۔ خبر ہے ’’لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کو زرعی ٹیکس وصول کرنے سے روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ٹیکس کے نفاذ سے قبل اسمبلی سے منظوری نہیں لی گئی۔ کسان پہلے ہی بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں‘‘۔ سپریم کورٹ نے بھی کسان کی حالت زار کا نوٹس لیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ کسان پیکیج حکمرانوں کی ذاتی جیب نہیں بلکہ عوام کے خون پسینے سے ادا کئے گئے ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر کسان پیکیج لا کر آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ کسان پیکیج بلدیاتی انتخابات سے پہلے جاری کیا گیا۔ 20 ارب پیکیج میں 10 ارب تقسیم بھی کر دئیے گئے۔ یہ ریوڑیاں کس کس کے جیب میں گئیں کسی کو معلوم نہیں۔ اگر دیہات میں ٹوٹی سڑکیں مرمت کردی جاتیں یا چار اطراف گندے تالابوں کی جگہ پارکس بنا دئیے جاتے تو محسوس ہوتا کہ پیکیج کا روپیہ دیہات پر صرف ہوا ہے۔ عدلیہ سے استدعا ہے کہ ملک کے دیہات اور کسانوں کو بالخصوص مکمل تباہی سے بچایا جائے۔ 12½ ایکڑ کا مالک کسان 21 اقسام کے لگان اور زرعی ٹیکس تو پہلے ہی ادا کر رہا ہے۔ 25 ایکڑ نہری پانی کا مالک کسان ایک ڈیزل ٹیوب ویل پر سالانہ تین سے چار لاکھ خرچہ کرتا ہے۔کھادوں اور کرم کش دوائوں کا خرچہ علیحدہ ہے۔ دیہات اور اہلِ دیہات کی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے۔ بڑے بڑے بیکار جوہڑ مچھروں کی آماجگاہ بنے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ صاف پانی دستیاب نہیں۔ لوڈشیڈنگ 18 گھنٹے، سکول طالب علموں سے خالی،کھلیانوں میں زرعی لیبر ناپید، سواری کے لئے پرانے تانگے یا رکشے، کسانوں کو فصلوں کی پوری قیمت وصول نہیں ہوتی۔ اس لئے کسانوں نے اسمبلی ہال کے سامنے آلوئوں کی بوریاں جلائیں۔ شوگر ملیں گنا کم قیمت پر خرید کر وقت پر ادائیگی نہیں کرتیں۔ زرعی مشینری پر ڈیوٹی ختم نہیں ہوئی۔ زرعی بجلی کا بل 10.35 روپے فی یونٹ سے 5 روپے تک نہیں کیا۔ رائس ملوں میں موجود لاکھوں ٹن چاول پاسکو کے ذریعے خرید کر بیرون ملک ایکسپورٹ نہیں کئے۔ چینی صدر کی آمد پر 46 ارب ڈالر کی انوسمنٹ ہوئی کسان کو کچھ نہیں ملا۔ پیکیج کی شاید ہی کسی شق پر عمل ہوا ہو اور 10 ارب روپے تقسیم بھی ہو گئے۔ بھارتی سرکار ہمارے دریائوں کا پانی ٹنلوں اور ڈیموں کے ذریعے سٹور کر رہی ہے یا رخ موڑ رہی ہے۔ نہروں میں پانی بہت کم مقدار میں آ رہا ہے۔ وزیراعظم مودی کے حکم پر دریا چناب کا رخ موڑا جا رہا ہے۔ (نوائے وقت 18 مئی) کالا باغ ڈیم کو ہمارے حکمرانوں اور بھارت کے بعض انعام یافتہ سیاسی لیڈروں نے سیاست کی نذرکر دیا۔ بھارت کے ایسے سنگین دشمنانہ اقدامات پر ہمارے حکمران خاموش کیوں ہیں؟ کیا ملک کو صومالیہ، ایتھوپیا، روانڈا بنانے کا ارادہ ہے، جہاں کی قحط سالی سے لاکھوں انسان ہلاک ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن