مسلم لیگ ن کی حکومت اب سایہ¿ زوال سے نکلتی نظر آ رہی ہے۔ہم اپنے کالموں میں بارہا ذکر کرچکے ہیں کہ پانامہ لیکس کے گورکھ دھندے سے میں میاں نوازشریف کے اقتدار کو خطرہ ہوسکتا ہے،وہ بھی اس صورت میں کہ پانامہ لیکس کی غیرجانبداری سے تحقیقات ہو۔اول تو پاکستان میں ایسی تحقیقات کا امکان ہی نہیں ہے دوسرے اگر یہ شروع ہو تو منطقی انجام کو پہنچنے تک مسلم لیگ ن اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہوگی۔ تحریک انصاف سمیت کسی پارٹی کی طرف سے اب وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں ہورہاالبتہ عمران خان یہ ضرور کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف پانامہ لیکس کی تحقیقات کے مکمل ہونے تک اپنے منصب سے دستبردار ہوجائیں تاکہ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کا امکان نہ رہے۔اس مطالبے کو بھی پزیرائی ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔بالفرض میاں نواز شریف پانامہ لیکس کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنا منصب عارضی طور پر چھوڑ دیتے ہیںیا پانامہ لیکس کی تحقیقات میں ان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے تودونوں صورتوں میں حکومت مسلم لیگ ن ہی کی رہے گی۔میاں نواز شریف کسی کو بھی عارضی طور اپنا جاں نشین بنا سکتے۔جہاں سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کاسیاسی جاں نشین کون ہوسکتا ہے؟۔آپ میرٹ،اہلیت ،قابلیت اور حالات و معاملات پر گرفت کی بات کریں تو میں میں سمجھتا ہوں کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے زیادہ میاں نواز کا کوئی اور بہترین متبادل نہیں ہوسکتا۔ میاں نواز شریف آج اگر وزیراعظم ہاﺅس میں موجود ہیں تو اس میں بنیادی کردار میاں شہباز شریف کا ہے۔ان کی پانچ سالہ کارکردگی عوام کے سامنے تھی جس کی بنیادپر 2013ءمیں عوام نے مسلم لیگ ن پر بھر پور اعتماد کیا۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کی طرف دوسری پارٹیوں خصوصاً پیپلز پارٹی کا صفایا میاں شہباز شریف کی کارکردگی پر عوام کا بھر پور اعتماد تھا۔یہ اعتماد انہوں نے اپنے اچھوتے منصوبوں کی اختراع اور انکی سے منفرد انداز میں تکمیل سے حاصل کیا۔اگر ایک طرف سے آپ شروع ہوجائیں تومیٹروبس،اورنج ٹرین،پاور پراجیکٹس، دانش سکول، اپنا گھرسکیم، انڈومنٹ فنڈ، ڈولفن فورس کے بعد ان اینٹی رائٹ فورس کے قیام تک لاتعداد منصوبے نظر آئیں گے۔اور پھر منصوبوں میں جو بچت کی گئی ہے وہ ان کا ہی خاصہ ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب حکومت نے ٹینڈر دے دیا تو پھر بچت کیسے ہوسکتی ہے۔اس مثال یہ ہے؛ ترکی کیساتھ میٹرو اور سالڈو ویسٹ مینجمنٹ کے معاہدے ہوئے۔ ترکی کی دو کمپنیوں کو سالڈ مینجمنٹ کا ٹھیکہ420 ملین ڈالر میں دیا گیا۔ ان دو کمپنیوں کا ہی کم ترین ریٹ تھا‘معاہدہ فائنل ہونے پر شہباز شریف نے اس کمپنی کے ہیڈز سے بات کی۔دونوں کے سامنے پاکستان کی غربت کا رونا رویا ان سے درخواست کہ وہ مزید گنجائش پیدا کریں۔اس پر دونوں کمپنیاں ٹھیکے میں پانچ پانچ ملین ڈالر کمی پر آمادہ ہو گئیں ان کمپنیوں کی مزید نوازش یہ ہوگی کہ وہ سات سال مکمل ہونے پر اپنی مشینری اور دیگر سامان پاکستان کو گفٹ کرکے جائینگی۔ میاں شہباز شریف کے انوکھے اور منفرد نظریات کے ان کے مخالف بھی قائل ہیں۔اینٹی رائٹ فورس کا قیام ایک منفرد تخیل ہے جس کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔پولیس کو ہر حکومت ہر فن مولا سمجھتی ہے،حفاظتی ڈیوٹیوں سے لے کر دہشتگردوں سے نمٹنے کے لئے ایک ہی اہلکار کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی اسے تربیت نہیں دی گئی ہوتی۔چند ماہ قبل ترکی کے تعاون سے سٹریٹ کرائمز کے خاتمے کے لئے ڈولفن فورس تشکیل دی گئی۔جس نے اپنا کام شروع کردیاہے۔ترکی سے متاثر ہوکر تشکیل دی جانے والی ڈولفن فورس کے لیے تقریباً 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈولفن فورس ابتدائی طور پر لاہور میں اپنا کام شروع کرے گی تاہم بعد میں اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک پھیلا دیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور ریلیوں کے دوران مشتعل مظاہرین کی ہنگامہ آرائی پر قابو پانے اور لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے ’اینٹی رائٹ فورس“ کا قیام عمل میں لانے کی منصوبہ بندی سامنے آئی۔ ڈیڑھ سو خواتین سمیت ایک ہزار اہلکاروں پر مشتمل یہ فورس مشتعل مظاہرین پر قابو پانے کیلئے جدید آلات سے لیس ہوگی اور 14 اگست 2016ءسے یہ فورس اپنا کام شروع کر دے گی۔ اس فورس کی تیاری بھی ترکی کی مدد سے کی جا رہی ہے اور فورس کی تیاری و تربیت کیلئے 42 پولیس افسران و اہلکار جن میں 6 خواتین بھی شامل ہیں انہیں ٹریننگ کیلئے استنبول بھجوا دیا گیا ہے جہاں سے تربیت کے بعد یہ لاہور پولیس کے 6 خواتین سمیت 42 ماسٹر ٹرینر لاہور میں فورس کے اہلکاروں کو مشتعل مظاہرین سے نبٹنے کیلئے جدید تربیت دیں گے۔ اس فورس کے پاس واٹر کینن گاڑیاں، آنسو گیس، حفاظتی شیلڈز اور ڈنڈوں کے علاوہ جدید آلات بے ہوش کرنے والی ٹینررگنز، کرنٹ کا جھٹکا لگانے والی سٹن گنز، مظاہرین کو بے ہوش کرنے کیلئے گولیاں برسانے والی گنز اور انتہائی زور دار شور مچانے والی ڈیوائس کے علاوہ مظاہرین کے موقع سے فرار ہونے پر ان کی نشاندہی اور شناخت کیلئے ان پر رنگ پھینکنے والی گنز بھی ہوں گی۔ انٹی رائٹ فورس کے کسی بھی اہلکار کی عمر 30 سال سے زائد نہ ہوگی۔ اس فورس کا اپنا انٹیلی جنس سسٹم اور اینالسٹ یونٹ ہوگا جو کہ احتجاج کے حوالے سے مظاہرین کی سرگرمیوں تیاری اور منصوبے سے قبل از وقت آگاہی حاصل کرکے اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرے گا اس کے علاوہ یہ فورس کھیل کے کسی بھی بڑے ایونٹ پر ہجوم کو قابو میں رکھنے کیلئے بھی خدمات سرانجام دے گی۔ پنجاب میںایلیٹ فورس، انسداد دہشت گردی پولیس، کوئیک ریسپانس فورس، پنجاب ہائی وے پیٹرولنگ اور محافظ فورس کام کر رہی ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ شہباز شریف سے کے دور میں ہی 1998 میں ایلیٹ فورس قائم کی گئی تھی۔ان تمام فورسز کا اپنا اپناکام ہے اور شہباز شریف نے ان کی معقول تنخواہیں مقرر کی ہیں جن میں ہرسال مناسب اضافہ بھی ہوتا ہے تاکہ یہ لوگ ایمانداری سے کام کریں ۔قوم کو واقعی ایسے حکمران کی ضرورت ہے۔ان کی اہلیت سے پنجاب تو مستفید ہورہا ہے جبکہ دوسرے صوبے محروم ہیں اوراب ایسی صورتحال بن رہی ہے کہ پورا ملک ان کے ان کے اچھوتے نظریات سے مستفیدہوسکے گا۔
شہباز کے اچھوتے اور منفرد منصوبوں کا تسلسل
May 24, 2016