قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ کی رپورٹ کو اراکین قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر بہ آواز بلند مشترکہ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے منظور کر لیا جس میں اراکین اسمبلی کی تنخواہیں تین گنا (یعنی 300 فیصد) اور مراعات الاﺅنس وغیرہ میں دس گنا یعنی موجودہ سے 1000 فیصد زیادہ!!) تک بڑھانے کا کہا گیا تھا۔ یہ اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ اراکین سینٹ پر بھی لاگو ہو گا۔ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ 71 ہزار سے بڑھا کر 2لاکھ روپے، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر، چیئر مین سینٹ اور ڈپٹی چیئر مین کو بالتریب 4لاکھ روپے اور ساڑھے تین لاکھ روپے ملیں گے ہر رکن کو 5 سال میں ایک مرتبہ 3لاکھ روپے آئی ٹی آلات کے ملیں گے 50 ہزار روپے ٹرانسپورٹ الاﺅنس اور دو لاکھ 20ہزار روپے یوٹیلیٹی، دفتری بہتری اور حلقہ الاﺅنس کے بھی ملیں گے۔ رکن اسمبلی اور اہل خانہ کے لیے فضائی ٹکٹ 3لاکھ سالانہ وغیرہ وغیرہ کی مراعات شامل ہیں۔
”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے“!! یہ ترش جملے اور طنز خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی واپسی کے بعد قومی اسمبلی میں آمد پر کہے تھے!! یہ جملے میڈیا نے اپنے اپنے پروگراموں، ٹاک شو، کامیڈی شو میں خوب اچھالے اور اپنے اپنے ”زاویے“ سے زندہ کیے ہوئے ہیں۔ اب قوم کے اجتماعی جذبات بھی اسی طرح کے اراکین اسمبلی اور سینٹ کے لیے یہی سن رہے ہیں بلکہ سنجیدہ حلقے اس سے زیادہ کے جملے بول رہے ہیں ”کچھ زندہ ضمیر ہوتا ہے کچھ قومی خزانے کو عیاشیوں پر اڑانے سے حیا ہوتی ہے؟؟ یا 300 فیصد اضافہ اور 1000 فیصد تک مراعات میں اضافہ قومی خزانے پر ”ڈاکے“ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو غیر اخلاقی بدتمیزی کی حدود کو چھوتی تلخ زبانوں، طعنوں، الزامات، جھوٹے بہتان طرازی، بلا ثبوت تبرہ بازی لتے لیتے بے شرمی کی حد تک بعض تیسرے درجے کے ترجمانوں کی بے حیا زبان قومی جمہوریت اور سیاست کاروں کا اصل چہرہ دکھا رہی ہیں!!نہ کسی مولوی عالم، مولانا نے حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، کے بطور خلیفہ بیت المال سے معمولی معاوضہ اور قومی خزانے میں امانت و دیانت کے خطبوں میں عوام کو دیئے جانے والے درس کو یاد رکھا نہ مخالفت کی نہ خود دست برداری کا اعلان کیا نہ عدم اتفاق نہ اختلاف؟ اب مستقبل میں حتمی منظوری سے قبل کیا کروڑوں، اربوں میں کھیلنے والے امیر زادے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے سے انکار کریں گے یا نہیں؟؟ یہ عوام دیکھیں گے کہ غریب غریب کا ہمدرد ہو نے کے دعویدار سیکرٹری قومی اسمبلی کو مراعات سے از خود دستبرداری اضافہ نہ لینے کے درخواستیں جمع کروا کر اعلان کرتے ہیں کہ نہیں؟؟ کرنے کا کام یہ ہے کہ ناز و نعمت والے اور امیر کبیر اراکین تو زندہ ضمیری کا مظاہرہ کریں اور میڈیا پر اعلان کریں کہ ہم تنخواہ اور مراعات نہیں لیتے۔
ساری قوم جانتی ہے کہ صرف دس تا پندرہ فیصد اراکین اسمبلی محدود آمدنی اور وسائل کے سفید پوش طبقے سے ہیں ان میں مخصوص نشستوں پر ”کوٹے“ پر آئے اراکین اسمبلی سینٹ بھی ہیں۔ اگر ضمیر مر نہیں چکے تو 300 فیصد اضافے یا 1000 فیصد تک الاﺅنس میں اضافے کو قائدین تحریک انصاف عمران خان، فاروق ستار، آصف علی زرداری، سید خورشید شاہ، اعتزاز احسن، سراج الحق اور ساری عمر سے درس، جمعہ کے خطبے سنا سنا کر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، اور اماموں صوفیوں کے قومی خزانے ”بیت المال“ سے معمولی سا معاوضہ وظیفہ لینے والے واقعات عوام کو ازبر کرانے والے مولانا فضل الرحمن (سب سے پہلے عالم باعمل بنیں) اعلان کریں کہ ہم غریب مقروض قوم کے خزانے پر ”ہاتھ صاف“ نہیں کریں گے؟؟ قوم کو پندرہ دن تک معلوم ہو جائے گا کہ اسلام، رسول، خدا، اسوہ¿ رسول کا درس دینے والے اور عوام کے نام نہاد ہمدرد کیا گل کھلاتے ہیں؟؟ چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین یا سپیکر و ڈپٹی سپیکر بھی بے تحاشا ناجائز اضافے کو مسترد کر دیں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی اراکین اسمبلی کی منظور کردہ قرار داد کے آگے ہر گز نہ جھکیں بلکہ 4 تا 5 ارب روپے اگلے بجٹ میں اس مد میں منظور کرنے کی بجائے اراکین اسمبلی و سینٹ کو سمجھائیں کہ اس رقم سے زچہ بچہ مراکز، ایمرجنسی صحت مراکز ایسے تحصیل و ضلع میں قائم کریں گے جہاں 70 یا 100 کلو میٹر میں یہ اعلیٰ درجہ کے یا اچھی سہولتوں سے محروم ہیں بلکہ وزیر اعظم سڑکیں پل بنانے کے بجائے ریسرچ کروا کر قومی خزانے سے 50 ارب روپے اگلے بجٹ میں مختص کریں جہاں غریب کو زندگی بچانے کے لیے آکسیجن، اعلیٰ ایمبولینس، وینٹی لیٹر، برن سینٹرز، ادویات مفت ملیں!! اگر غریبوں کے ساتھ ہیں تو اراکین اسمبلی ”ایکا“ کرکے حکمرانوں کو جھکائیں ورنہ عوامی جذبات تو مشتعل ہوں گے۔ عوام کی اکثریت تو کہہ رہی ہے یہ اراکین پارلیمنٹ کی مثال ’چنوں کی حفاظت پر بکرا‘ دودھ کی رکھوالی پر بلی یا بلے، کی ہے!! کچھ زیادہ مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں یوں کہہ رہے ہیں ”لمبی سی تان سے بے بے.... جیسے پٹھے چارہ دیکھ کر بکرے بے بے کر رہے ہیں کچھ کہہ رہے ہیں۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کا مفت فاتحہ اراکین اسمبلی پڑھ رہے ہیں یہ زکوٰة کے مستحق طبقے جیسی امدادوں اور مراعات کے طلبگار ؟؟ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے؟؟