اسلام آباد (شفقت علی/ نیشن رپورٹ) پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منطور کے مارے جانے کے بعد امریکہ اور افغانستان میں خوشی منائی جا رہی ہے تو دوسری جانب پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ٹینشن پہلے سے چل رہی تھی جو اب مزید زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ دوسری طرف افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ اس طرح حالیہ امریکی ڈارون حملے کے بعد پاکستان کے ایران اور امریکہ سے سفارتی تعلقات میں تناؤ آ جائیگا۔ پاکستان نے اب تک ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کے مارے جانے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ حکومت نے ڈرون حملے پر مضبوط مؤقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم واشنگٹن سے بھی رابطے میں ہیں اور اس طرح کے حملوں پر کمپرومائز نہیں کیا جائیگا۔ ایک دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ وزیراعظم اور سینئر سفارتی عہدیدار مغرب اور مشرق وسطیٰ میں دوست ممالک سے رابطوں میں ہیں تاکہ امریکہ کی حدود سے تجاوز کرنے سے روکا جائے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکی کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ خطرناک جنگجو پاکستان میں کسی طرح ہجرت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم امریکہ اور دوستوں کو بتا رہے ہیں کہ اتحادیوں کے ساتھ دشمنوں کی طرح سلوک نہیں کیا جاتا ہم حالیہ حملوں کیخلاف ٹھوس مؤقف اختیار کرینگے۔ مسائل پر تفصیلی گفتگو کرنے کیلئے دوروں کا تبادلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ دفاعی تجزبہ کار لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے کہا امریکہ کے خطے میں اپنے مفادات ہیں امریکہ نے بھارت کے ساتھ معاہدے کئے ہیں جن کے تحت وہ بھارتی فوجی اڈوں کو استعمال کر سکتا ہے پاکستان کو صرف امریکہ پر انحصار چھوڑ کر دیگر آپشنز پر بھی غور کرنا چاہئے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر محمد خان نے کہا امریکہ نے دوغلا کردار ادا کیا ہے، ایک طرف وہ بھارت کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی دے رہا ہے۔ دوسری طرف وہ پاکستان سے دفاعی معاہدے منسوخ کر رہا ہے۔