ملا اختر منصور واقعی دو روز قبل امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوا ہے یا یہ واقعہ بھی مئی 2011ءمیں اسامہ بن لادن کے نام پر ایبٹ آباد میں کئے گئے امریکی اپریشن کا ایکشن ری پلے ہے، یہ امریکی مفادات کے ناطے سے امریکہ ہی کا معاملہ ہے مگر بلوچستان میں کئے گئے دو روز قبل کے ڈرون حملے کی بنیاد پر ہماری خود مختاری کہاں پر کھڑی ہے۔ اگر حکمرانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ نہیں تو پھر اجتماعی طور پر ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے تو یہ سیدھا سیدھا اسامہ بن لادن کے خلاف اپریشن کا ایکشن ری پلے ہی نظر آتا ہے۔ وہی حالات، وہی ماحول، وہی رویہ اور اس روئیے میں وہی کہانی جو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان پر ملبہ ڈالنے کے لئے امریکی ذہن رسا نے تیار کی ہوئی ہے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد اپریشن سے پہلے بھی اسی طرح ہمارے کردار پر امریکی بدگمانیوں کا اظہار جاری تھا اور پاکستان امریکہ تعلقات میں ویسی ہی کشیدگی اور سردمہری تھی جیسی آج پاکستان کی فوجی امداد کو افغان انتہا پسندوں کی حقانی گروپ کے خلاف ”نتیجہ خیز“ کارروائی اور پاکستان کے غدار شکیل آفریدی کی رہائی کے ساتھ مشروط کرکے پیدا کی گئی ہے۔ پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کی ضرورت مئی 2011ءمیں بھی امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے اوبامہ کو اپنی دوسری ٹرم کے لئے امریکی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر پیش آئی تھی اور اب مئی 2016ءمیں بھی ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس کے مابین امریکی صدارتی انتخاب کا معرکہ چل رہا ہے جس میں ڈیموکریٹس کی امیدوار ہلیری کے لئے امریکی عوام میں راہ ہموار کرنا مقصود ہے تو اس کے لئے پاکستان پر ملبہ ڈالنے والے اسامہ بن لادن جیسے ایکشن ری پلے کی اوبامہ کو ضرورت پڑی ہے۔ انہوں نے ایبٹ آباد اپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان بھی خود اپنی نشری تقریر میں کیا جبکہ اب ملا اختر منصور کی بلوچستان کے ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق بھی خود اوبامہ نے کی ہے جو امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے ڈیموکریٹس کی جانب سے کریڈٹ لینے کی واضح دلیل ہے۔ ایبٹ آباد اپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت بھی آج تک معمہ بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں ایبٹ آباد اپریشن سے بہت پہلے اس کے انتقال کرنے کی خبریں یا افواہیں زیر گردش تھیں جبکہ ایبٹ آباد اپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کی لاش کی جھلک تک نہ دکھا کر امریکہ نے ان افواہوں کو مزید تقویت پہنچائی۔ تقاضے اس وقت بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت اپریشن کے جاری تھے اور پھر ایبٹ آباد میں امریکی سٹیلتھ ہیلی کاپٹر پاکستان کی خود مختاری کو روندتے ہوئے پہنچ گئے اور اسامہ بن لادن کے مکان پر، جس کی نشاندہی شکیل آفریدی نے کی تھی، فضائی حملہ کرکے چلتے بنے۔ اس وقت بھی کہا گیا کہ ہم نے ایبٹ آباد آباد اپریشن کی پاکستان کو پیشگی اطلاع کر دی تھی جس کا اس وقت تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے کریڈٹ بھی لے لیا تھا اور جب اس اپریشن پر ”سود و زیاں“ کے نتارے کی نوبت آئی تو اس اپریشن پر امریکہ سے احتجاج کی رسم بھی ادا کر لی گئی۔
یہی حالات آج ملا اختر منصور کے خلاف بلوچستان اپریشن کے حوالے سے بنے نظر آ رہے ہیں۔ اس اپریشن سے ایک ڈیڑھ ہفتے قبل ہی پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کے متحرک نہ ہونے کا پراپیگنڈہ شروع کر دیا گیا تھا اور پھر امریکی کانگرس نے پاکستان کی امداد بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کر دی۔ جس کے اگلے ہی روز بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کی ہلاکت کی خبر آ گئی جس کی اب امریکی صدر اوبامہ نے باضابطہ طور پر تصدیق کر دی ہے تو اس ڈرون حملے کا مقصد بالخصوص امریکی عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ہمارے دشمن دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا ہے مگر امریکی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ہم دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستان کے اندر بھی جا رہے ہیں۔
کیا اس حملے میں واقعی ملا اختصر منصور ہلاک ہوا، گزشتہ روز سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے چیئرمین حافظ حمداللہ اس حوالے سے دوٹوک الفاظ میں باور کرا چکے ہیں کہ ملا اختر منصور تو دس ماہ پہلے مارا گیا تھا اس لئے اس کی ہلاکت کا اب امریکہ نے محض ڈرامہ کیا ہے اور یہ ڈرامہ پاکستان پر ملبہ ڈالنے کے لئے ہی کیا گیا ہے جبکہ اس ڈرامے کا مقصد پاکستان کو امریکی ایف 16طیاروں کی فراہمی سے متعلق معاہدے کو ناقابل عمل بنانے کا ہے۔ ہماری جانب سے اس پر کیا ردعمل سامنے آیا؟ وزیراعظم نواز شریف تو اس ڈرون حملے کی اطلاع پانے کے بعد لندن روانہ ہو گئے تھے جہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو کے دوران رسمی بیان دے دیا کہ یہ ڈرون حملہ ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور بس! آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ امریکہ نے تو اس ڈرون حملے کے ذریعے ماضی کی طرح ہماری خود مختاری کو چیلنج ہی نہیں کیا بلکہ پاکستان میں ڈرون حملوں کا دائرہ بلوچستان تک پھیلانے کا بھی پیغام دے دیا ہے۔ کیا ہم محض یہی گردان کرتے رہیں گے کہ فلاں ڈرون حملہ ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی ہے یا ہمیں اپنی خود مختاری کے تحفظ کے لئے کوئی عملی اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے؟ شائد ہم آزاد و خود مختار ایٹمی پاکستان نہیں، کوئی بنانا سٹیٹ ہیں اور چوراہے پر بیٹھے ہیں جہاں ہر کسی کو ہمیں لات، گھونسہ، تھپڑ رسید کرکے گزرنے کا استحقاق حاصل ہو چکا ہے۔
مجھے اس حوالے سے اور کچھ نہیں کہنا کہ میرا دل دکھ سے بھرا ہوا ہے۔ اگر امریکہ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے باعث ہمارے تباہ و برباد ہونے پر بھی ہم سے بدگمان ہے اور ہمیں سپورٹ فنڈ سے امداد یا قرضہ دینے کا بھی روادار نہیں اور ڈرون حملوں کے ذریعے ہماری خود مختاری کو روندنا اس نے اپنا شغل میلہ بنا لیا ہے تو ہمارے حکمران کس مجبوری یا کس گمان میں امریکہ کو وطن عزیز کی خود مختاری کو رگیدنے کی اجازت دئیے چلے جا رہے ہیں۔ اول تو پاکستان کو پیشگی اطلاع دئیے بغیر ہی ڈرون حملے کئے جاتے ہیں اور بالفرض امریکہ ہمارے دفتر خارجہ کو کسی ڈرون حملے کی پیشگی اطلاع بھی دے دیتا ہے تو کیا اس سے ہماری خودمختاری کو روندتے ہوئے ہماری سرزمین پر ڈرون حملے کرنا اس کا استحقاق بن جاتا ہے؟ ہمیں تو کسی ڈرون حملے کی اطلاع ملتے ہی اس متوقع حملے کے پیچھے موجود ہاتھوں کو سختی سے روکنے اور جھٹکنے کا کوئی بندوبست کرنا چاہئے مگر بس پہلے سے لکھا ہوا رسمی احتجاج ہمارے ارباب بست و کشاد کے لبوں پر آ جاتا ہے اور اس کے لئے بھی موقع محل تلاش کیا جاتا ہے تاکہ امریکی جبین نیاز پر کوئی شکن نہ امڈ آئے۔ پھر کیا یہ صورتحال اجتماعی طور پر ہمارے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟ آپ محض رسمی احتجاج کرتے جائیے۔ امریکی بدمعاشی ہمارے قبائلی علاقوں سے نکل کر پھنکارے مارتی بلوچستان تک آ پہنچی ہے تو جنوبی پنجاب بھی اس کی دستبرد سے کتنا دور رہ جائے گا۔ آپ قومی غیرت کو بس تھپکیاں دے کر سلاتے رہئے اور مفاداتی سیاست میں ایک دوسرے کے گریبانوں تک اپنے ہاتھ پہنچانے کی نوبت لاتے رہئیے۔ ملک کی سلامتی پر جو خطرات ملک کے باہر سے لپک رہے ہیں، آپ کی طاقت و اختیار کا جادو انہیں بھسم کرنے کی قوت سے محروم ہے تو پھر اس بے توقیری میں سوائے گریہ زاری کے ہمارے پاس کیا بچے گا بھائی صاحب!
بیچ ہے منجدھار آسی اور ساحل دور ہے
کیسے ہو گا اپنا بیڑہ پار، الٰہی خیر ہو