امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاض میں عرب اسلامک امریکہ کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان، یہودی، عیسائی مل جائیں تو امن ہو جائے گا۔ ایران خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ علاقائی ممالک اسے تنہا کر دیں۔ مسلمان دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور انتہا پسندوں کو اپنے حلقوں سے نکال دیں۔ یہ اچھے اور بروں کی جنگ ہے۔ یہ سفاک مجرموں اور مہذب افراد کے درمیان جنگ ہے۔ امریکہ نے سعودی حکام کے ساتھ 400ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط بھی کئے جن میں 110ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے دفاعی سامان کی بھی بہت تعریف کی۔ اس دفاعی ڈیل سے امریکیوں کو روزگار ملے گا اور علاقے کو سکیورٹی ملے گی۔ ویسے ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن امریکہ میں لڑا۔ وہ الیکشن کیا تھا۔ ایک سرکس شو تھا، جس میں ٹرمپ کا کردار ایک جوکر سے مشابہت رکھتا تھا۔ ٹرمپ کی حرکات و سکنات پر ہنسی آتی تھی۔ اس سارے امریکی الیکشن میں ٹرمپ اپنے لئے عزت کمانے کی سرتوڑ کوشش کرتے نظر آتے تھے لیکن عزت ان کے میلوں آگے بھاگتی دکھائی دیتی تھی۔ جب ان کے خلاف جلوس نکلتے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آتا تھا جسے عرقِ ندامت ہی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کسی بہی خواہ سے پوچھا ہو گا کہ میں امریکی صدر منتخب ہو گیا ہوں لیکن جو مقبولیت اور عزت مجھ پر شبنم کے قطروں کی طرح گرنی تھی۔ وہ پسینے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس پسینے کے پیچھے ندامت ہی ندامت ہے۔ اب مجھے اپنی مقبولیت اور عزت کمانے کا کوئی گُر یا کلیہ بتائو۔
ٹرمپ کے ہمدرد نے سب سے پہلے تو تولیے کا مشورہ دیا ہو گا۔ پھر کہا ہو گا فکر ہی نہ کریں میرے آقا۔ مقبولیت اور عزت آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ صرف آپ نے سعودی عرب جانا ہے۔ عرب ارب پتی ہوتے ہیں ۔ پیسہ خرچ کرتے انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ فکر کرنے والی باتوں پر بھی فکر نہیں کرتے، اس لئے فکرمند نہیں ہوتے۔ آپ سعودی عرب جائیں گے تو عزت بھی کمائیں گے اور پیسہ بھی۔ صدر ٹرمپ نے سوچا ہو گا کہ امریکی صدر کا الیکشن لڑا مگر وہ چَس نہ آئی جو سعودی عرب میں آئی۔ امریکی صدر کا الیکشن اور اس کی توقیر اور عزت کے بقیہ مراحل یہاں طے ہوئے ہیں۔ بندہ امریکی صدر بن جائے اور اس کے عوام اس کے خلاف جلوس نکالیں اور ٹکے ٹکے کے لوگ اس کے خلاف ٹکے ٹکے کی باتیں کریں۔ یہ عربی لوگ کتنے اچھے اور بھولے ہیں کہ امریکہ کو توقیر کی نگاہوں سے بھی دیکھتے ہیں اور اربوں ڈالر پر مبنی اسلحے کے آرڈر بھی دیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ ایران تمہارا دشمن ہے۔ تم اسے تنہا کر دو۔ وہ جس کا نام حمیت تھا، اگر مسلم امہ کے گھر سے نہ گئی ہوتی تو وہ صدر ٹرمپ سے پوچھتے کہ اسرائیل کے بارے آپ کا کیا خیال ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم کیوں ڈھاتا ہے اور وہ اکیلا کس کی آشیرباد پر سب عربوں کو آنکھیں اور اسلحہ دکھاتا ہے۔ اس کانفرنس میں تو صدر ٹرمپ نے او پی بن کر کہہ دیا ہے کہ ایران تمہارا دشمن ہے۔ صدر ٹرمپ اسرائیل سے کیوں نہیں کہتے کہ تم ہندوستان کو جدید ترین اسلحہ اور ڈیفنس سسٹم کس ملک کے خلاف دیتے ہو۔ اسرائیل اور ہندوستان کو امریکہ نے پاکستان کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ بھارت نے ابھی کہا ہے کہ پاکستان خود کو بدل لے ورنہ ہم بدل دیں گے۔ ہندوستان امریکہ کا بغل بچہ ہے۔ جب مسئلہ کشمیر کی بات ہو تو امریکہ کہتا ہے دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ ہم کسی کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہیں کرتے۔ جب عربوں کو لڑانے اور اپنا اسلحہ فروخت کرنے کا موقع آتا ہے تو انہیں صاف صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں ملک تمہارا دشمن ہے۔
جب برصغیر میں انگریز آئے تو انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی۔ انہوں نے یہاں اتنی مداخلت کی کہ برصغیر کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ امریکہ نام امن کا لیتا ہے اور میدان جنگ کے لئے مسلم ممالک کا انتخاب کرتا ہے۔ عراق میں امریکہ آیا۔ لاکھوں بے گناہ مسلمان عورتیں، بچے اور مرد مارے گئے۔ افغانستان کے خلاف امریکہ نے خود کارروائی کی اور بے گناہ عورتوں، بچوں اور مردوں پر بم پھینکے۔ کیا عراق اور افغانستان میں امن دکھائی دیتا ہے۔ لیبیا کا حال سب کے سامنے ہے اور شام میں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں انتہا درجے کی بدامنی اور فتنہ و فساد ہے۔ جبکہ مغربی ممالک، اسرائیل اور ہندوستان میں امن ہی امن ہے۔ ہم مسلمانوں کو شاید کبھی ہوش نہ آئے۔ پاکستان کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ ہم قرض پر قرض لے رہے ہیں۔ صد شکر کہ ہم ایٹمی قوت ہیں لیکن عوام کی معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ نانِ جویں کو ترس رہے ہیں۔ جس طرح امریکہ ہم مسلمانوں کو آپس میں لڑنے لڑانے کا راستہ دکھا رہا ہے، یہ راستہ بالاخر ایٹمی طاقت پاکستان کو کمزور کرنے کی طرف جا رہا ہے۔ سی پیک منصوبہ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ فساد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑھا کر پاکستان اور چین کو بتانا مقصود ہے کہ امن و دوستی کیا چیز ہے اور خوشحالی کیا ہے۔